کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 59
أنه قد فاته الثلث فأکثر، وهٰذا فیما وصلت إليه أیدینا بمصر، وما لم یصل إلینا أکثر وفي الأقطار الخارجة عنها من ذلك أکثر فاغتر بهذه الدعوٰی کثیر من الأکابر، فصار کل حدیث یسأل عنها، أو یرید الکشف علیه یراجع الجامع الکبیر، فإذا لم یجده فیه غلب على ظنّه أنه لا وجود له، فربّما أجاب بأنه لا أصل له فعظم بذلك الضرر، لکون النفس إلىٰ الثقة بزعمه الاستیعاب وتوهم أن ما زاد على ذلك لا یوجد في کتاب، فأردت التنبیه على بعض ما فاته في هذا المجموع، فما کان في الجامع الکبیر أکتبه بالمداد الأسود، ما کان من المزید فبالمداد الأحمر،أو أجعل علیه مدة حمراء
’’زیر نظر کتاب کی تالیف کے اسباب میں سے یہ سبب تھا کہ امام سیوطی نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنہوں نے اپنی کتاب ’الجامع الکبیر‘ میں تمام احادیثِ نبویہ کو جمع کیا ہے حالانکہ اس کتاب میں احادیث نبویہ کا تہائی یا اس سے اکثر حصہ چھوٹ گیا ہے۔ یہ تناسب ان کتب کے اعتبار سے ہےجومصر میں ہمیں دستیاب ہیں ۔ وہ کتب جوہمیں میسرنہیں یا بیرون دنیا میں ہے ،ان کے حساب سے تناسب زیادہ بنتا ہے۔ پھر اس دعویٰ سے کئی اکابر علما مغالطے کاشکار ہوئے اور بات یہاں تک جاپہنچی کہ ہر وہ حدیث جس کی تلاش کا سوال کیا جاتا یا کسی حدیث کی تخریج مطلوب ہوئی تو الجامع الکبیر کامراجعہ کیا جاتا اورجب محقق کو مطلوبہ حدیث نہ ملتی تو اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی کہ اس حدیث کا وجود ہی نہیں اور بعض اوقات محقق یہ جواب دیتا کہ ایسی حدیث بے سروپا اور باطل ہے۔
اندریں حالت یہ نظریہ کہ کسی مستند عالم(سیوطی) کی اس بات پر اعتماد کہ اس نے تمام احادیث کا احاطہ کیا ہے، اس سے اس وہم میں مبتلا ہونا کہ اس کتاب کے سوا احادیث کتب احادیث میں موجود نہیں ، نہایت تباہ کن تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر میں نے بعض ان احادیث سے متنبہ کرنے کا ارادہ کیا، جو اس کتاب’’الجامع الکبیر‘‘ میں موجود نہیں تھیں ۔ چنانچہ جو احادیث الجامع الکبیر میں موجود ہیں اُنہیں میں سیاہ روشنائی سے لکھتا ہوں اور جو احادیث اس سے اضافی ہیں ، انہیں میں سرخ روشنائی سے لکھتا ہوں یااس پرسرخ خط کھینچ دیتا ہوں ۔‘‘
مؤلف کی اس تحریر سے عیاں ہوتا ہے کہ اُنہوں نے زیرتبصرہ کتاب میں الجامع الکبیر کی