کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 47
سے اس کے چرچے اہل علم میں زبان زدِ عام ہیں اور تمام علما و فضلا اس کی حسن ترتیب و جمع اَحادیثِ کثیرہ کا کھلا اعتراف کرتے ہیں ،جس وجہ سے یہ کتاب متونِ احادیث میں سے ایک جامع کتاب کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
كسی بڑے مجموعہ میں تمام احادیث کو جمع کرنے کی یہ کوشش اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمارمصادر سے استفادہ کیا گیاہے، تاہم اس لحاظ سے یہ استفادہ اورجمع محدود بھی ہے کہ اس میں صرف ان احادیث کو لایا گیا ہے جو مختصر اورجامع قولی روایات ہیں ، تفصیلی احادیث اور لمبے واقعات سے اجتناب کیا گیا ہے۔
کتاب کی ترتیب و انتخاب كاطریقہ
جلال الدين عبدالرحمٰن بن ابو بکر سیوطی رحمہ اللہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام قولی اورفعلی احادیث میں سےمختصراور جامع روایات کو ایک کتاب میں جمع کرنے کا ارادہ کیا، جسے اُنہوں نے الجامع الکبیر المسمّٰی جمع الجوامع سے موسوم کیا اور پھر اسی کتاب کی دو قسمیں بنائیں ۔ القسم الأوّل قولی احادیث پر مشتمل ہے اور اُنہیں حروفِ ہجائی کی ترتیب پر مرتب کیا۔ القسم الثاني احادیثِ فعلیہ پرمشتمل ہے اور اسے مسانیدِ صحابہ کی طرز پرمرتب کیا گیا ہے، لیکن یہ کتاب ابھی زیر تکمیل تھی کہ امام صاحب اس دارِفانی سے کوچ کرگئے۔ البتہ وفات سے چند سال قبل اُنہوں نے قسم اوّل یعنی قولی احادیث کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا،اور اس کانام الجامع الصغیر من حدیث البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وسلم رکھا، جس کی احادیث کی تعداد تقریباً10031 تھی ۔پھر اسی کتاب کی ذیل لکھی جس کا انتخاب الجامع الکبیراور دیگر احادیث کی کتب سے کیا گیا اوراسے زیادة الجامع سے موسوم کیا، اس ذیل کی ترتیب اور رموز بھی الجامع الصغیر کی ترتیب و رموز کے موافق تھی جس میں احادیث کی تعداد تقریباً 4440 ہے۔یہ دونوں کتابیں ’الجامع الصغیر‘ اور ’زیادۃ الجامع‘ باقاعدہ الگ الگ دو کتابیں تھیں جنہیں علامہ یوسف نبہانی نے یکجا کردیا۔ یوں یہ کتاب الجامع الصغیر و زیادته کے نام سے معروف ہوئی۔
اس کتاب میں احادیث کی ترتیب حروفِ ہجائی کے لحاظ سے ہے، البتہ حرف کاف سے شروع ہونے والی احادیث ذکر کرنے کے بعد لفظ ’کان‘ سے شرو ع ہونے والی احادیث کو الگ باب میں ذکر کیا ہے۔ حرفِ ’نون ‘سے شروع ہونے والی احادیث کے خاتمے کے بعد باب المناهي کے نام سے وہ روایات نقل کی گئی ہیں جن کا آغاز لفظ ’نہی ‘سے ہوتا ہے، تاہم حرف ِ’لام‘ کے تحت آنے والی روایات میں ان روایات کا ذکر نہیں جن کا آغاز کلمہ ’لا‘ سے ہوا ہے بلکہ اُنہیں ایک الگ باب