کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 36
ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ممتنع ہے۔‘‘ پس کلامِ لفظی کا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام ممتنع ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ممتنع پر قادر نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر قادر ہو تو یہ ممتنع نہ رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کلام لفظی کے قیام کو ممتنع قرار دینا اور’اللہ کا کلامِ لفظی پرقادر نہ ہونا ‘ایک ہی مفہوم رکھتا ہے۔ اس کواس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ماتریدیہ و اشاعرہ کے نزدیک اللہ کا لفظی کلام پر قادر ہونا اس کا محل حادث بننے کی قدرت رکھنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ محل حادث بننے کی قدرت (بالقوة رکھے یا بالفعل دونوں صورتوں میں ) اہل تاویل کے ہاں نقص اور عیب شمار ہو گا کہ جس نقص اور عیب سے بچنے کے لیے ہی اُنہوں نے کلام نفسی کا فلسفہ تخلیق کیا ہے۔ جہاں تک سلف صالحین اور اہل سنت والجماعت کا تعلق ہے تو وہ یونانی فلسفہ کے انسانی اُصولوں سے اللہ تعالی کو بلند وبالا سمجھتے ہیں کہ انسان اللہ جل شانہٗ کی ذات و صفات کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی کنہ کے اِدراک سے انسانی عقل کوتاہ ہے، اسی طرح ان صفات کی کیفیات سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ سلف کا صفاتِ الٰہی کے بارے میں عرفی معنیٰ پیش کر کے اس کی کیفیت مجہول قرار دینے کا طریقۂ کار سلامتی کی راہ ہے۔ گویا اہل تاویل کی بنیادی غلطی اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کو اپنی عقل کا پابند بنانا ہے۔ اس کے بالمقابل ائمہ سلف ’الٰہیات‘ کی تعبیر میں نہ صرف فلسفہ کی عاجزی کا موقف رکھتے ہیں بلکہ فلسفہ سے مستعار اصطلاحات مثلاً قدیم، حادث اورممتنع وغیرہ کے استعمال سے الٰہیات کی تعبیر کرنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک سلامتی کا ضابطہ یہی ہے کہ اللہ کے لیے صرف اسی لفظ ومعنیٰ کا اثبات کرو جو کتاب وسنت سے ثابت ہو اور اس کی ذات سے صرف اسی اسم و وصف کی نفی کرو جس کی نفی کتاب وسنت میں موجود ہو۔ اس کے علاوہ کے بارے میں ﴿وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى﴾ (النحل:60) اور ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ﴾ (الشوریٰ:11) کا اعلان کرتے ہوئے قیل وقال سے سکوت اختیار کرو۔