کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 35
جس نظم کا نام قرآن ہے اور یہ حروف سے مرکب ہے،کیونکہ جو شخص بھی کسی کام کا حکم دیتا ہے یا اس سے منع کرتا ہے یا اس کی خبر دیتا ہے تو پہلے اپنے جی میں اس کے بارے ایک معنیٰ پاتا ہے اور پھر اس معنی پر عبارت، کتابت یا اشارے کے ذریعے رہنمائی کرتا ہے اور یہ معنی(جو کوئی شخص اپنے جی میں پاتاہے) علم نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات انسان اس کی بھی خبر دیتا ہے جو اس کے علم میں نہ ہو بلکہ وہ اس کی بھی خبردیتا ہے جو اس کے علم کے خلاف ہوتی ہے۔اور یہ کلام نفسی ارادہ بھی نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات انسان ایک ایسے کام کا حکم جاری کرتا ہے جس کو وہ چاہتا نہیں ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے غلام کو قصداً یہ حکم جاری کرے کہ وہ اس کی نافرمانی کرے اور اس کے احکامات پر عمل نہ کرے۔اس کلام کو کلامِ نفسی کہتے ہیں ۔‘‘ ماتریدیہ اور اشاعرہ کے کلامِ نفسی کے موقف کی اس تفصیلی وضاحت کے بعد اب ہم جناب واصل واسطی صاحب کے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں ۔ ماتریدیہ اور اشاعرہ نے اللہ تعالیٰ کی ذات سے کلامِ لفظی کا انکار اس لیے کیا ہے کہ ان کے نزدیک کلامِ لفظی میں حدوث ہے اور اللہ کی ذات سے اس کا صدور ماننے کا مطلب اللہ کی ذات کو محلِّ حوادث ماننا ہے جو ممتنع ہے۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں : إن معنى المتکلم من قام به الکلام، والمنتظم من الحروف حادث یمتنع قیامه بذات اﷲ تعالىٰ [1] ’’ متکلم کا معنی ہے جس کے ساتھ کلام قائم ہو اور جو کلام حروف سے پرو دیا گیا ہو تو وه حادث ہوتا ہے اور حادث کا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام ممتنع ہے۔‘‘ شرح عقائد ِنسفیہ میں ہے: (أزلیة) ضرورة امتناع قیام الحوادث بذاته [2] ’’(صفت ِکلام)اَزلی ہے اور اس کو ازلی اس ضرورت کے تحت کہا گیاہے کہ اللہ کی
[1] شرح المقاصد : ٤/147 [2] شرح عقائد نسفیہ: ص٤٢