کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 34
والخرس [1]
’’ کلام الٰہی اللہ کی ایسی صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ (یعنی کلام نفسی) اس سکوت کے منافی ہے کہ جس سے مراد قدرت کے باوجود کلام کو ترک کر دینا ہے اور یہ(یعنی کلامِ نفسی) آفت کے بھی منافی ہے کہ جس سے مراد پیدائشی طور پر آلاتِ کلام(مثلاً زبان وغیرہ) کا اثر کو قبول نہ کرنا ہے جیسا کہ گونگے کی مثال ہے یاعہدِطفولیت میں ان آلاتِ کلام کا کمزور ہونا یاان آلات کے قوت پکڑنے سے پہلے کازمانہ مراد ہے۔ پس اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کی یہ گفتگو تو کلامِ لفظی سے متعلق ہے نہ کہ کلام نفسی کے بارے میں کیونکہ سکوت اور گونگا پن تو کلامِ لفظی کے منافی ہیں ۔ اس کا جواب ہم یہ دیں گے کہ ہماری سکوت اور گونگے پن کی آفات سے مراد باطنی سکوت اور گونگا پن ہے، یعنی اس طرح کہ وہ اپنے نفس میں کلام کا ارادہ ہی نہ کرے یا اپنے نفس میں کلام پر قدرت ہی نہ رکھتا ہو۔ پس جس طرح کلام کی دو قسمیں کلامِ لفظی اور کلامِ نفسی ہیں تو اس طرح ان دونوں کی ضد یعنی سکوت اور گونگا پن بھی ہیں ۔‘‘
اس پر ایک اعتراض یہ لازم آتا ہے کہ جب اللہ کا کلام، کلام نفسی ہے تو صفت ِکلام اور صفت ِعلم میں کیا فرق باقی رہا ؟تو اس کا جواب اہل تاویل یوں دیتے نظر آتے ہیں :
(والکلام) هو صفة أزلیة عبر عنها بالنظم المسمى بالقرآن المرکب من الحروف.وذٰلك لأن کل من يأمر وینهی ویخبر یجد في نفسه معنى، ثم یدل علیه بالعبارة أو الکتابة أو الإشارة، وهو غیر العلم، إذ قد یخبر الإنسان عما لا یعلمه، بل یعلم خلافه، وغیر الإرادة، لأنه قد يأمر بما لا یریده، کمن أمر عبده قصدا لإظهار عصیانه،وعدم امتثاله لأوامره، ویسمى هٰذا کلاما نفسیًا [2]
’’اور کلام الٰہی سے مراد اَزلی صفت ہے جسے ایک نظم کے ذریعے بیان کیا گیا ہے
[1] شرح عقائد نسفیہ : ص٤٢
[2] شرح عقائد نسفیہ : ص٤١