کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 33
ہے جیسا کہ اس(یعنی قرآن) کا اطلاق حادث ، تلاوت کیے جانے والے نظم پر ہوتا ہے۔پس مصنف نے کہا: قرآن ، اللہ کا کلام غیرمخلوق ہے۔ مصنف نے قرآن کے فورا بعد کلام اللہ کے الفاظ نقل کیے ہیں کیونکہ ہمارے مشائخ کا کہنا یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے، یہ جملہ کہنا چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ’قرآن غیر مخلوق‘ ہے تاکہ ذہن میں یہ بات نہ آ جائے کہ اصوات و حروف سے تالیف شدہ نظم بھی قدیم ہے جیسا کہ حنابلہ نے جہالت اور عناد کی وجہ سے یہ موقف اختیار کیا ہے۔‘‘ جب اہل تاویل پر یہ اعتراض ہوا کہ آپ اللہ کے لیے کلام نفسی ثابت کرتے ہیں اور کلامِ لفظی کا انکار کرتے ہیں تو اس سے اللہ کا ساکت یا گونگا ہونا لازم آتا ہے ۔ لفظی کلام دو قسم کے اشخاص نہیں کرتے ہیں : ایک وہ جو لفظی کلام پر قدرت تو رکھتا ہو لیکن کلام نہ کرے جیسا کہ ’ساکت‘ یا خاموش آدمی کی مثال ہے۔ دوسرا وہ جو لفظی کلام پر قدرت ہی نہ رکھتا ہو جیسا کہ گونگے کی مثال ہے۔ اور یہ دونوں عیب شمار ہوتے ہیں کیونکہ کلام کی قدرت کے باوجود کبھی بھی کلام نہ کرنا عیب ہے اور کلام کی قدرت ہی نہ رکھنا بھی نقص ہے۔ اس کا جواب اہل تاویل یہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ کی ذات سے سکوت اور گونگے پن کی نفی کرتے ہیں ۔ اب اس پر اعتراض یہ پیدا ہوا کہ صرف کلام نفسی کے متکلم سے سکوت اور گونگے پن کی نفی کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ کلامِ نفسی کا متکلم تو لفظی کلام کرتا ہی نہیں ہے ۔ اس کی تاویل ، اہل تاویل نے یوں کی کہ سکوت اور گونگے پن سے ہماری مراد باطنی سکوت اور گونگا پن ہے۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں : (وهو) أي الکلام (صفة) أي معنى قائم بالذات (منافیة للسکوت) الذي هو ترك التکلم مع القدرة علیه (والآفة) التي هي عدم مطاوعة الآلات ما بحسب الفطرة کما في الخرس، أو بحسب ضعفها وعدم بلوغه حد القوة، کما في الطفولیة. فإن قیل هذا الکلام إنما یصدق على الکلام اللفظي دون الکلام النفسي، إذ السکوت والخرس إنما ینافي التلفظ. قلنا: المراد السکوت والآفة الباطنیان، بأن لا یرید في نفسه التکلم، أو لا یقدر على ذٰلك، فکما أن الکلام لفظي ونفسي، فکذا ضده، أعني السکوت