کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 32
مشترک ہے اور یہ اشتراک قدیم کلام نفسی ، اور اس کلام سے مراد حقیقی کلام ہے، اور آیات و سور سے تالیف شدہ حادث کلامِ لفظی میں ہے جبکہ یہاں کلام لفظی کو کلام الٰہی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق ہے نہ کہ مخلوقات کی تالیفات میں سے ہے(یعنی مصاحف میں موجود کلام کو کلام اللہ اس لیے کہاہے کہ یہ اللہ کی تالیفات اور مخلوق میں سے ہے نہ کہ مخلوق کی تالیفات یا تخلیق میں سے)۔
اس پر یہ اعتراض پیدا ہوا کہ آپ نے توکلام الٰہی کو مخلوق بنا دیا ۔ اب آپ میں اور معتزلہ میں فرق کیا رہا؟تو اس کا اہل تاویل نے یہ جواب دیا ہے کہ ہم کلام الٰہی کو مخلوق نہیں مانتے اور جس کلام الٰہی کو ہم مخلوق نہیں مانتے، وہ کلام نفسی ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور ازلی ہے اور جہاں تک معاملہ ہمارے پاس موجود مصاحف میں لکھے ہوئے قرآن کا ہے، تو یہ اہل تاویل کے ہاں مخلوق ہے۔ پس اہل تاویل کے نزدیک قرآن کا معنی تو کلام الٰہی ہے اور غیر مخلوق ہے جبکہ اس کے الفاظ کلام الٰہی نہیں اور مخلوق ہیں ۔ اس کے برعکس معتزلہ کے نزدیک قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں مخلوق ہیں ۔علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں :
ولما صرح بأزلیة الکلام، حاول التنبیه على أن القرآن أیضا قد یطلق على هذا الکلام النفسي القدیم، کما یطلق على النظم المتلو الحادث فقال:"والقرآن کلام اﷲ تعالىٰ غیر مخلوق" وعقب القرآن بکلام الله، لما ذکره المشایخ من أنه یقال: القرآن کلام اﷲ تعالىٰ غیر مخلوق، ولا یقال: القرآن غیر مخلوق، لئلا یسبق لي الفهم أن المؤلف من الأصوات والحروف قدیم،کما ذهب إلیه الحنابلة جهلا وعنادا [1]
’’ اور جب کلام الٰہی کے ازلی ہونے کی صراحت ہو چکی تو مصنف نے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ لفظ ’قرآن‘ کا اطلاق بعض اوقات اس قدیم کلامِ نفسی پر بھی ہو جاتا
[1] شرح عقائد نسفیہ: ص