کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 31
جبکہ بعض اہل تاویل کا کہنا یہ ہے کہ یہ الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کلام نفسی کا ادراک اللہ کی ذات سے حاصل کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو پیدا کر دیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ادراک کو اپنے الفاظ میں کلام لفظی کی صورت دے دی۔ پس قرآن کے الفاظ تو حضرت جبرئیل علیہ السلام یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں جبکہ اس کا معنیٰ اللہ کی طرف سے ہے۔
اس نکتہ نظر پر ایک اعتراض یہ پیدا ہوا کہ پھر مصاحف میں موجود قرآن یا کلام کو کلامِ الٰہی کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب اہل تاویل یہ دیتے ہیں کہ ہم تو اسے مجازاً کلام الٰہی کہتے ہیں ، ورنہ یہ حقیقت کے اعتبار سے کلام الٰہی نہیں ہے بلکہ مخلوق عبارتیں ہیں ۔علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں :
فإن قیل لو کان کلام اﷲ تعالىٰ حقیقة في المعنی القدیم مجازًا في النظم المؤلف، لصح نفیه عنه بأن یقال لیس النظم المنزل المعجز المفصل إلي السور والآیات کلام اﷲ تعالىٰ، والاجماع على خلافه ... قلنا: التحقیق أن کلام اﷲ تعالىٰ اسم مشترك بین الکلام النفسي القدیم، ومعنی الإضافة کونه صفة اﷲ تعالىٰ، وبین اللفظی الحادث المؤلف من السور والآیات، ومعنى الإضافة أنه مخلوق ﷲ تعالىٰ، لیس من تألیفات المخلوقین [1]
’’ اگر یہ کہا جائے کہ کلام اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ معنیٰ قدیم کے اعتبار سے تو حقیقی کلام ہے جبکہ تالیف کیے گئے نظم کے اعتبار سے(یعنی الفاظ کے پہلو سے) مجازی کلام ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم یہ بھی مانیں کہ(قرآن کا) جو نظم (یعنی الفاظ کی ترکیب وترتیب) نازل کیا گیا ہے اور وہ معجزہ ہے اور آیات وسور میں تقسیم ہے تو یہ کلام اللہ نہیں کہلائے گا جبکہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ نظم ،اللہ کا کلا م ہے... ہم اس اعتراض کا جواب یوں دیں گے کہ تحقیق کے مطابق کلام اللہ’اسم
[1] شرح عقائد نسفیہ: ص45،46