کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 30
أما الکلام القدیم الذي هو صفة ﷲ تعالىٰ، فذهب الأشعري إلى أنه یجوز أن یسمع. ومنعه الأستاذ أبو إسحق الإسفرائیني وهو اختیار الشیخ أبي منصور رحمه اﷲ فمعنٰی قوله تعالىٰ ﴿حَتّٰی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّٰهِ﴾ یسمع یدل علیه، کما یقال:سمعت علم فلان. فموسٰی سمع صوتا دالا علىٰ کلام اﷲ تعالىٰ، لکن لما کان بلاواسطة الکتاب والملك، خص باسم الکلیم [1] ’’ جہاں تک قدیم کلام کا معاملہ ہے جو اللہ کی صفت ہے، تو ابو الحسن اشعری کا کہنا ہے کہ اسے (یعنی کلام الٰہی کو) سنا جا سکتا ہے جبکہ ابو اسحٰق اسفرائینی اور ابومنصور ماتریدی کا کہنا یہ ہے کہ کلام الٰہی کو سننا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول ’’یہاں تک کہ وہ کلام اللہ کو سن لے‘‘ کا معنیٰ ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اس عبارت کو سن لے جو اللہ کے کلام پر دلالت کر رہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلا ں کا علم سنا ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی(کوہِ طور پرکلام الٰہی کونہیں سنا تھابلکہ) وہ آواز سنی جو کلامِ الٰہی پر دلالت کر رہی تھی لیکن چونکہ یہ آواز کسی کتاب یا فرشتہ کے واسطہ کے بغیر تھی لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ کا خطاب دیا گیا۔‘‘ اس موقف کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس موجود مصاحفِ قرآنیہ میں اللہ کا کلام موجود نہیں ہے بلکہ جو شخص مصحف ِقرآنی میں موجود اللہ کے کلام کی تلاوت یا کتابت کرتا ہے تو وہ اللہ کے حقیقی کلام کی تلاوت یا کتابت نہیں کرتا۔ اسی طرح جو شخص قرآن کی تلاوت سنتا ہے وہ بھی اللہ کا کلام نہیں سن رہا بلکہ ایک ایسی عربی عبارت سن رہا ہے جو اللہ کے کلام پر دلالت کر رہی ہے۔ یعنی مصاحف میں موجود الفاظ اللہ کے نہیں ہیں بلکہ ان الفاظ کا جو معنیٰ ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور وہ معنیٰ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اب اس پر سوال یہ پیدا ہوا کہ قرآن کے الفاظ اگر اللہ کے نہیں ہیں تو پھر کس کے ہیں ؟ اس کا جواب بعض اہل تاویل نے یہ دیا کہ یہ الفاظ حضرت جبرئیل علیہ السلام علیہ السلام کے ہیں یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلامِ نفسی کا ادراک لیا اور اپنے الفاظ کی صورت میں ادا کر دیا۔
[1] شرح عقائد نسفیہ:ص 45، مکتبۃ الکلیات الازہریہ، القاہرة، 1988ء