کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 29
قائم ہوتے ہیں جبکہ الفاظ ان معانی کو ادا کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں ، جو زبان سے نکل کر انسان سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ پس کلام نفسی وہ معانی ہیں جو متکلم کی ذات کے ساتھ قائم ہوں ۔ اللہ کے یہ معانی ازلی ہیں یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا کل کلام ، کلامِ نفسی ہے اور یہ ازلی ہے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کلام الٰہی ایک معنوی وحدت ہے جس کے اجزا نہیں کئے جا سکتے ہیں ۔علامہ سعد الدین تفتازانی (متوفی 793ھ ) لکھتے ہیں :
فعند أهل الحق کلامه لیس من جنس الأصوات والحروف، بل صفة أزلیة قائمة بذات ﷲ تعالىٰ منافیة للسکوت، والآفة کما في الخرس والطفولة هو بها آمر ناه مخبر وغیر ذلك، یدل علیها بالعبارة أو الکتابة أو الإشارة، فإذا عبر عنها بالعربیة فقرآن، وبالسریانیة فإنجیل، بالعبرانیة فتوراة.والاختلاف علىٰ العبارات دون المسمّٰی کما إذا ذکر ﷲ تعالىٰ بألسنة متعددة ولغات مختلفة [1]
’’ اہل حق کے نزدیک اللہ کا کلام اصوات اور حرو ف کی جنس میں سے نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی سے مراد وہ ازلی صفت ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔اور یہ کلام نفسی سکوت اور عیب کے منافی ہے جیسا کہ گونگے اور بچے میں یہ عیب ہوتا ہے ( کہ وہ لفظی گفتگو نہیں کر سکتا)۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس ازلی کلام نفسی کے ذریعے حکم بھی دیتے ہیں اور منع بھی کرتے ہیں اور خبر وغیرہ بھی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام نفسی پر عبارت، کتابت یا اشارہ کے ذریعہ رہنمائی فرماتے ہیں ۔پس جب اس ازلی کلام نفسی کو عربی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ قرآن بن جاتا ہے اور اگرسریانی میں بیان کیا جائے تو انجیل بن جاتی ہے اور اگر عبرانی میں بیان ہو تو تورات بن جاتی ہے۔ پس (ان کتابوں میں ) اختلاف عبارات کا ہے جبکہ مسمّٰی (مفہوم) ایک ہے۔‘‘
ان اہل تاویل کا کہنا یہ بھی ہے کہ اللہ کا کل کلام ازلی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سب کلام ازل ہی میں فرما لیا تھا اور یہ ازل سے اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو مکالمہ قرآن میں نقل ہوا ہے وہ کسی خاص یا متعین وقت میں نہیں ہوا بلکہ وہ ازل سے ہے ۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں :
[1] شرح المقاصد:1444، عالم الکتب، بیروت، طبع دوم،1998ء