کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 28
2. اسی طرح اللہ کی صفات ِفعلیہ (لازمہ با لذات) مثلاًنزول (اترنا)، استواء (برابر ہونا) اورمجيء(آنا) وغیرہ کابھی اثبات نہیں کرتے۔البتہ صفاتِ فعلیہ متعدیہ (خلق و رزق وغیرہ) کے قائل ہیں ۔ l علاوہ ازیں ان حضرات نے صفات ِمعانی کو لفظاً تسلیم کرنے کے باوجود ان کی تشریح وتوضیح میں تاویلات کا لمبا چوڑا باب کھولا ہوا ہے۔ ان تاویلات کا پس منظر یہ ہے کہ بنو عباس کے دور میں جب یونانی فلسفہ کی کتب کے عربی تراجم ہوئے تو بہت سے کمزور ایمان اہل علم نے یونانی فلسفہ کے منطقی اعتراضات کا گہرا اثر لیا اور وحی الٰہی سے جواب دینے کے بجائے یونانی فلسفہ جس کے بانی مر کھپ چکے تھے، کو زندۂ جاوید فلسفہ قرار دیتے ہوئے اس کے منطقی اُصولوں کو بے چوں وچراں تسلیم کر لیا اور اس طرح ایک مستقل علم ’علم الکلام‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یونانی منطق کے علم کلام کی بنیاد پر قائم ہونے والے کلامی فرقوں میں جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ نمایاں ہیں ۔ ہم اپنے سابقہ مضمون میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ ائمہ فقہا ےاربعہ عقیدہ میں علم کلام سے متنفر ہونے کی وجہ سے سلفی تھے جبکہ برصغیر پاک وہند میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اکثرمقلدین عقیدہ میں ائمہ اربعہ کی اتباع کی بجائے ابو منصور ماتریدی کے پیرو کار ہیں اور اسی نسبت سے ’ماتریدیہ‘ کہلاتے ہیں ۔ چنانچہ اشاعرہ اور ماتریدیہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِکلام کا لفظاً اقرار کرنے کے باوجود اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اللہ کا کلام لفظی نہیں ہو سکتا بلکہ نفسی ہوتا ہے کیونکہ الفاظ و حروف حادث ہیں اور اگر اللہ کے کلام کو لفظی کلام مان لیا جائے تو اللہ کی ذات محلِّ حادث ٹھہرے گی جو ممتنع ہے۔ پس اللہ کا کلام صرف نفسی ہے یعنی اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اس کو وہ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کلام کرنے سے پہلے اپنے ذہن میں ان معانی کو لاتا ہے جن کو وہ الفاظ کی صورت دینا چاہ رہا ہوتا ہے۔ پس ذہن میں موجود جن معانی کو انسان الفاظ کی صورت دے کر مخاطب تک پہنچانا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ معانی کلام نفسی کہلاتے ہیں ۔ اور وہ انسان کی ذات کے ساتھ