کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 27
سے ایک خط موصول ہوا جو ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:
جناب واصل واسطی صاحب کا خط
محترم جناب حافظ حسن مدنی صاحب (مدیر ’محدث‘لاہور)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آداب! حافظ زبیر صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اچھا ہے،مگر اس میں ص12پرایک فقرہ یوں ہے’’مثلا اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں ہے۔‘‘جہاں تک ہمارا علم ہے کہ یہ ماتریدیہ و اشعریہ میں سے کسی کا عقیدہ نہیں ہے، اگرچہ وہ کلام نفسی کے قائل ہیں مگر کلام لفظی پر عدم قدرت کی بات تو مشہور کتابوں مثلا شرح مواقف، شرح مقاصد،شرح عقائد جلالیہ، شرح عقائد نسفیہ اوربیاضی وغیرہ میں نہیں ہے۔
بڑی مہربانی ہو گی اگر اس کی نشاندہی کریں ۔ والسلام
واصل واسطی معلّم مرکز علوم اسلامیہ(منصورہ )،لاہور
خط کا جواب
الٰہیات کے بارے میں تعبیرات مع اصطلاحات اگرچہ متکلمین کے ہاں متفقہ نہیں ہیں تاہم ایک تعبیر کے مطابق اشاعرہ اور ماتریدیہ نے صفاتِ الہیہ کو پہلے صفاتِ عقلیہ میں اور صفاتِ خبریہ میں تقسیم کیا ہے، پھر عقلیہ کی تقسیم چار ناموں سے اس طرح کی ہے:
1. نفسیہ: اس سے مراد صفت ِوجود ہے۔
2. سلبیہ: اس سے مراد قِدم ، بقا، مخالفت حوادث ِاور قیام بالنفس کی صفات ہیں ۔
3. معانی: اس سے مراد ذات سے زائد سات صفات ہیں اور وہ حیات، قدرت، ارادہ، علم، سمع ، بصر اور کلام ہیں ۔
4. معنویہ: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کاحی، قادر، مرید، علیم، سمیع، بصیر اور متکلم ہونا ہے۔
اسی طرح اشاعرہ اور ماتریدیہ صفات خبریہ کی تقسیم بھی کرتے ہیں جو یوں ہے:
1. اللہ کی صفاتِ ذاتیہ مثلاًصفت ید (ہاتھ)، صفت وجہ ( چہرہ) اور صفت ِعین (آنکھ) وغیرہ کا اثبات نہیں کرتے ۔