کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 24
نے ان کے لیے خیرالقرون ہونے کی بشارت دی اور اُن کے ایک مد صدقہ کو دوسروں کے اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے سے افضل قرار دیا۔ اگر ان میں سے کسی نے کسی غلطی کاارتکاب کیا بھی تو توبہ کی بدولت، نیکیوں کے غلبہ اور سبقتِ اسلام کی وجہ سے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت یا دنیا میں کسی فتنہ و آزمائش میں مبتلا ہونے کے باعث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے غفران کے اسباب موجود ہیں ۔ یہ بات تو واقعاتی گناہوں کی حدتک ہے۔ البتہ اُمور اجتہادیہ میں درست ہوں یاغلط، ہر دو صورتوں میں وہ عنداللہ ماجور ہوں گے۔ مزیدبرآں یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب اور شرف و منزلت کےمقابلے میں ان کے قابل اعتراض معاملات بے حقیقت معلوم ہوتے ہیں ۔ معترضین کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مضبوط ایمان، علم و عمل، ہجرت، نصرتِ رسول اور جہاد فی سبیل اللہ جیسی خوبیاں بھی نظر آنی چاہیں ۔ درحقیقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و اوصاف اور خوبی کردار کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ وہ انبیاے کرام کے بعد خیرالخلق اور افضل البشر ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُن جیسا کوئی آیا، نہ آسکتا ہے۔ اس اُمت کے خیر القرون(بہترین زمانہ) میں ان عظیم اوصاف کے حامل افراد نے اپنا عرصۂ حیات گزارا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع درحقیقت اسلام پر حملہ ہے! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذات پر حملہ درحقیقت اسلام پر طعنہ زنی کرنا ہے،کیونکہ اُنہیں کے ذریعے ہمیں اسلام پہنچا۔ حضرت امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کے قول میں یہ بات گزر چکی ہے : وانما أدیٰ إلینا هذا القرآن والسنن أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وإنما یریدون أن یجرحوا شهودنا لیبطلوا الکتاب والسنة والجرح بهم أولى وهم زنادقة [1]
[1] الكفاية:1/111