کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 22
لیے رحمت اللہ کا اظہار او ران سے محبت ان کا عقیدہ ہے۔‘‘ [1] 5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب العقیدة الواسطية میں رقم طراز ہیں : ’’اہل السنّہ والجماعہ کا اُصول ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں زبانیں اوردل ہر طرح کی پراگندگی سے محفوظ رہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے : ﴿وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ رسول ِمکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی اطاعت میں ان کے سرتسلیم خم ہیں کہ ((لاتسبوا أصحابي فوالذي نفسي بیده لو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذهبًا ما بلغ مد أحدهم ولا نصیفه)).صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں درجات و مراتب پر اہل السنّہ ایمان رکھتے ہیں ۔ لہٰذا صلح حدیبیہ اور فتح مکہ سے قبل جانی و مالی معاونت کرنے والوں کی فضیلت، مہاجرین کی انصارِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر برتری، غزوۂ بدر کے شرکا کے لیے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا حصول (اعملوا ما شئتم قد غفرت لکم) صلح حدیبیہ کےموقع پر درخت تلے بیعت کرنےوالوں پر نارِ جہنم کی حرمت بلکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے پروانے ﴿رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ﴾،عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم مثلاً ثابت بن قیس بن شماس وغیرہم کے لیے جنت کی بشارتیں اہل السنّہ والجماعۃ کے عقیدہ کا حصہ ہیں ۔ خلفاے راشدین میں بالترتیب حضرت ابوبکر ، ان کے بعد حضرت عمر، تیسرے حضرت عثمان اورچوتھے حضرت علی رضی اللہ عنہ اس اُمت کے بہترین افراد ہیں ۔ حضرت ابوبکر و عمر کی تقدیم پراہل السنّہ میں کوئی اختلاف نہیں ۔البتہ بعض نے حضرت عثمان و علی کے درمیان درجات میں کچھ اختلاف کیا ہے۔حضرت عثمان و علی کے درمیان برتری کا مسئلہ ایسا نہیں کہ جس میں کسی فریق کوبھی گمراہ قرار دیا جاسکے البتہ رسول
[1] مع شرح:1؍115