کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 21
زمانہ ہے اور ان میں سے افضل ترین بالترتیب خلفاے راشدین حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکرِ خیر زبانوں پر رہے او ران کے درمیان اختلاف پر بحث نہ کی جائے۔ سب سے بڑھ کر انہی کا حق ہے کہ فتنوں و اختلافات کے واقعات میں ان کے لیے بہتر راہ نکالی جائے اور ان کے حق میں بہتر موقف اختیار کرنے کا تصور اپنایا جائے۔‘‘ [1]
3. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب السنّہ میں لکھتے ہیں :
’’اصحابِ رسول کے محاسن کا تذکرہ اور ان کے باہمی اختلافات پربحث کرنا مستحب ہے۔ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی بُرا کہے، وہ بدعتی اور رافضی ہے، ان سے محبت کرنا سنت، ان کی اقتدا اور اُن کے لیے دعا وسیلۂقربت اور ان کی عادات کو اختیار کرنا باعث ِفضیلت ہے۔‘‘
امام احمد کا مزید کہنا ہے:
’’کسی کےلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکرِ سو یا ان پرطعن و تشنیع کرنا جائز نہیں ۔ حاکم وقت پر فرض ہے کہ ایسا کرنے والے کو سزا دے، کیونکہ یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ سزا دینے کے بعد اس سے توبہ کروائی جائے، اگر توبہ کرے تو بہتر وگرنہ اسےدوبارہ سزا دی جائے اور اسے قید میں رکھا جائے جب تک کہ وہ توبہ کرکے اس فعل مذموم سے باز نہ آئے۔‘‘ [2]
4. امام ابوعثمان صابونی رحمہ اللہ اپنی کتاب عقیدة السلف وأصحاب الحدیث میں لکھتے ہیں :
’’اسلاف و محدثین رحمہ اللہ ،صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی مشاجرات میں سکوت اختیار کرنے اور اُن کے عیوب و نقائص سے زبانوں کو پاک رکھنے کے نظریہ پر قائم ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے
[1] رسالہ القیرانویہ:1؍23
[2] ص: 419