کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 19
علاوہ باقی راویانِ حدیث پر بحث ضروری ہے تاکہ رواۃ حدیث کی عدالت ثابت ہوسکے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کی چھان بیان ضروری نہیں ، اس لیے اس کی عدالت وامانت اور طہارت و رفعت منزلت خود ربِ کائنات کی طرف سے ثابت ہے۔‘‘
ان کلماتِ فاضلہ کے بعد خطیب بغدادی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت و عظمت میں بعض آیات و احادیث کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی شان یوں بیان کی:
’’اگر اللہ تعالیٰ اور سول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت سے متعلق کچھ منقول نہ بھی ہوتا تب بھی ان کے اپنے ایمانی حالات، ہجرت، جہاد اور دین کی سربلندی کے لیے جان و مال اور اولاد کی قربانی ان کی عدالت و امانت اور عقیدہ و عمل کی پاکیزگی و طہارت ان کےمابعد عظمت و شان کا اعتراف کرنےوالوں سےکہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ابو زرعہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب آپ کسی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے دیکھیں تو جان لیں کہ وہ زندیق ہے۔ اس لیے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآن کریم ہمارے ہاں برحق ہیں ، ہم تک قرآن اور سنت رسول پہنچنےکاذریعہ اصحاب رسول ہی ہیں ۔یہ زندیق او رملحد لوگ ہمارے گواہان شریعت پرجرح کرکے کتاب و سنت کو معطل کرنا چاہتے ہیں او رحقیقت میں یہی زندیق جرح کے حق دار ہیں ۔‘‘ [1]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل السنّہ والجماعہ کا عقیدہ
اہل السنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں افراط و تفریط سے بالاتر ہوکر میانہ روی اور اعتدال پر مبنی موقف رکھتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت میں غلو کرتے ہوئے اُنہیں اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام دے دینا یا اُنہیں ان کےمنصب سےگرا کر طعن و تشنیع او رسب و شتم کانشانہ
[1] 1؍111