کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 18
افضل الامہ افراد سے کیونکر نسبت ہوسکتی ہے؟ یہاں تو زمین و آسمان کا فرق ہے، زمین کی خاک کو ثریا سے کیا نسبت ہوسکتی ہے؟
﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ١. وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ﴾ [1]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیکی و تقویٰ اور امانت و دیانت کے اعلیٰ مقام پرفائز ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تقویٰ و عدالت پر قرآن و سنت شاہد ہیں ۔اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کی مداح سرائی کسی سے مخفی نہیں ۔
ائمہ اسلاف کے اَقوال
12. امام نووی التقریب میں رقم طراز ہیں :
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام عادل ہیں خواہ جن کا فتنوں سےپالا پڑا یا جو ان فتنوں سےمحفوظ رہے اور اس پراُمت کے معتبر لوگوں کا اجماع ہے۔‘‘ [2]
13. حافظ ابن حجر الإصابة في تمييز الصحابة میں نقل کرتے ہیں :
’’اہل السنّہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ۔ صرف بدعتی اور ناقابل اعتبار لوگوں نے اس بات کی مخالفت کی ہے۔‘‘ [3]
اسی لیے سند حدیث میں اگر صحابی کانام مجہول بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ۔اگر تابعی یوں کہے:عن رجل صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے روایت کی صحت پر کوئی اثر نہی پڑتا کیونکہ صحابی کے نام کاتذکرہ نہ بھی ذکر ہوتو کوئی نقصان نہیں ۔ یہ صحابہ کے عدالت و امانت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ہے۔
14. خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’متصل حدیث کی قبولیت میں بھی راویوں کا عادل ہونا شرط ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے
[1] البقرة:64
[2] تدریب الراوی:2/214
[3] 1/6