کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 13
کرام کے لیے استغفار کرتے ہوئے پروردگار سے اس بات کے خواستگار رہے کہ ان کےدلوں میں کبھی اصحابِ رسول کے لیے کینہ و بغض پیدا نہ ہو۔ آیات میں مذکور ان تین اقسام (مہاجرین و انصار اور دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنےوالوں ) کے علاوہ دیگر لوگ شیطان کے جھانسے میں گرفتار ہوکر ذلت و رسوائی سے ہم کنار ہوتے ہیں ۔
5. اسی طرح کے گمراہ لوگوں کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ بن زبیر سے فرمایا:
أمروا أن یستغفروا لأصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فسبوهم [1]
’’ان لوگوں کو اصحابِ رسول کے لیے استغفار کا حکم تھا ،لیکن اُنہوں نے ان کو بُرابھلا کہا...‘‘
سورۃ الحشر کی ان آیات کے تذکرے میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
’’امام مالک رحمہ اللہ نے اسی سے دلیل لی ہےکہ جو آدمی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بُرا بھلا کہے، اس کا مالِ فے سے کوئی حق نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مالِ فے کا استحقاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والوں کےلیے اس شرط کے ساتھ رکھا ہےکہ وہ اُن کے لیے استغفار کرنے والے ہوں ۔‘‘ [2]
انہی آیات کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’امام مالک رحمہ اللہ نے کیا خوب استدلال کیا ہے کہ وہ رافضی جو صحابہ رضی اللہ عنہم ی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے، وہ مالِ فے کا حق دار نہیں ٹھہرتا،کیونکہ وہ ان اوصاف سے متصف نہیں جن کا اس آیت ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ...﴾ میں ذکر ہے۔
اَحادیث وآثار
6. رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ
[1] صحیح مسلم:3022
[2] شرح نووی:1/399