کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 80
عالم دین مولانا محمد صاحب جونا گڑھی رحمہ اللہ تھے جو ڈاکٹر صاحب موصوف کے خسر تھے۔علامہ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کی سیرت پاک پر بے مثال کتاب ’رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ‘ بھی ہمارے ممدوح ڈاکٹر صاحب کے قلم حق رقم سے بنگلہ زبان کے قالب میں ڈھل چکی ہے، جو بے شبہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔ بنگلہ کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے اُردو زبان میں بھی تحریرو و اِنشا کے جوہر دکھائے ہیں جس کا ایک نمونہ زیر تبصرہ کتاب ہے جو ’برصغیر کا اسلامی ادب:چند نامور شخصیات‘کے عنوان سے چھپ کر منصّۂ شہو د پر آئی ہے۔ زیر نظر کتاب میں برصغیر کے جن علمی وادبی ہستیوں کا مختصر اور جامع تذکر ہ کیا گیا ہے، ان کے اسماے گرامی یہ ہیں : امام صاغانی لاہوری، علامہ نواب صدیق حسن خان، مولانا محمد جونا گڑھی دہلوی، مولانا محمد اکرم خان، احسن احمد اشک، مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری اور محمد اسحٰق بھٹی؛ مؤخر الذکر کے سوا تمام حضرات دار ِفنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر چکے ہیں ۔ اس کتاب کا’پیش لفظ‘ مصنف کے فرزندِ ارجمند پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف صدیق کے قلم سے ہے ۔ڈاکٹر محمد یوسف صدیق بھی اپنے والدِ گرامی کی طرح مصنّف ومحقق ہیں اور ادارۂ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب میں HECکی طرف سے بطورِ پروفیسر تدریسی وتحقیقی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ بھی ہےجو دہلی کی معروف درس گاہ ’دار الحدیث‘ کے تاریخی پس منظر اور تعارف پر مشتمل ہے۔اس درس گاہ کی تاسیس مولانا عبد العزیز محدث رحیم آبادی رحمہ اللہ کی تجویز پر ہوئی۔1921ء میں اس مدرسہ کی تعمیر مکمل ہوئی جس پر اس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ کی خطیر رقم صرف ہوئی تھی۔یہاں سے بڑے نامور علما فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کا تعلیمی نظام ونصاب محدث روپڑی رحمہ اللہ اور ان کے برادرِ اصغر شیخ التفسیر حافظ محمد حسین روپڑی رحمہ اللہ کے ہاتھ رہا اور امتحانات کی ذمہ داری اوّل تا آخر برصغیر کے علمی خانوادے روپڑی حضرات کے پاس رہی۔بالآخر تقسیم ہند کے ساتھ ہی اس اعلیٰ درسگاہ کی بندش کا حادثۂ فاجعہ پیش آ گیا۔