کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 78
مطالبہ کررہے تھے، دوسری طرف اس دوران کئی ایک واقعات گواہ ہیں کہ اس عرصہ میں کئی بار اہانت ِرسول کا ارتکاب کیا جاتا رہا تھا، تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام توہین رسالت کا مقدمہ قانون نہ ہونے کے سبب یا تو درج نہ کراسکتے تھے یا قانون پر عدم اعتماد اور اس کے ناکافی کے سبب درج کرانے کو فضول امر سمجھتے تھے۔
3) جہاں تک عباس اطہر اور راقم کے دیے ہوئے اعداد وشمار میں فرق کا تعلق ہے کہ میں نے 986 کیسز [درست تعداد964] ذکر کئے ہیں او رعباس اطہر نے 1200 سے زائد کیسز کا تذکرہ کیا ہے ، دونوں میں فرق کیوں ہے؟
تو راقم کی معلوما ت کا انحصار پاکستان میں عیسائی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ’نیشنل کمیشن برائے امن وانصاف‘ کی باضابطہ رپورٹ ہے۔ یادر ہے کہ یہ تنظیم پاکستان کیتھولک چرچ کے پشپ حضرات کے زیر نگرانی 1985ء میں قائم کی گئی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کو قانونی معاونت مہیا کرنا اس تنظیم کا بنیادی ہدف ہے۔تنظیم کے بارے مزید تفصیلات انٹرنیٹ پر آپ خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔
مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں کیسوں کی یہی تعداد حقیقت کے زیادہ قریب ہے، جیسا کہ بی بی سی نے بھی اس تعداد کو 950 کے قریب رپورٹ کیا ہے۔ میرے خیال میں اعداد وشمار میں یہ فرق کوئی بڑی اہمیت نہیں رکھتا، تاہم یہ امر ضرور قابل توجہ ہے کہ کیا پاکستانی عدالتوں نے اس بنا پر کسی ایک مرتکبِ جرم کو قانون کے عین مطابق سزائے موت سنا کر نافذ کی ہے یا نہیں ؟ عباس اطہر نے جن 38/افراد کے مقتول ہونے کا ذکر کیا ہے تو واضح رہے کہ یہ عوام کے ماورائے عدالت قتل ہیں ۔ یہ امر بہر طور ثابت شدہ ہے کہ دسمبر 2010ء تک 24 سال کے عرصے میں نفاذِ قانون کے بعد کسی کوبھی اس جرم کی بنا پر پاکستان میں سزائے موت نہیں دی گئی۔ اس سے زیادہ اس قانون سازی کے غیرمؤثر ہونے کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے؟
معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار جنوری2011ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز احمد چودھری نے توہین رسالت کے ایک مرتکب کی سزائے موت کو کنفرم کیا ہے، لیکن تاحال اپیل اور نفاذ سزا کے مراحل باقی ہیں ۔اگر کسی قانون کو نافذ ہی نہ کیا جائے تو اس کے اثرات معاشرے پرخاک پڑیں گے، بلکہ اُلٹا مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوگی، یہی وجہ کہ پاکستان میں ا س نوعیت کے جرائم روز افزوں ہیں ۔