کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 77
آئے،لیکن فروری 2011ء کے محدث کے ص 9 پر آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کی تاریخ نفاذ 1992ء سے اب تک توہین رسالت کے 986 کیس درج ہوئے ہیں ۔ ‘‘ یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ کل 986 کیس 1986ء تا 2009ء درج ہوئے ہیں یا 1992ء سے اب تک (یعنی جنوری 2011ء تک)؟ روزنامہ ’ایکسپریس‘ لاہور مؤرخہ 15جنوری میں کالم نگار عباس اطہر صاحب کے کالم بعنوان ’دنیا ایسی نہیں ہوتی!‘ میں لکھا ہے: ’’1927ء سے لے کر 1986ء تک 295 کا صرف ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔1986ء سے اب تک 1200 سے زائد مقدمات کا اندراج ہو چکا ہے جن میں سے 1050 سے زائد پنجاب کے حصے میں آئے۔اب تک 38 افراد قتل ہو چکے ہیں جن میں 15 مسلمان، 16 کرسچن، 5 احمدی اور 2 ہندو ہیں ۔عدالتیں 80 سے زائد ملزموں کو بری کر چکی ہیں ۔‘‘ ظاہر ہے کہ آپ کے دئیے ہوئے اور عباس اطہر صاحب کے دئیے ہوئے اعداد وشمار میں بہت فرق ہے۔براہِ مہربانی اس فرق کی وضاحت فرما کر شکر گزار فرمائیں ۔ آپ کا خیر اندیش [محمد اکرم راٹھور،مینیجر بزم طلوعِ اسلام،لاہور] جوابی وضاحت :مراسلہ نگار نے پہلا سوال یہ کیا ہے کہ 986 میں سے 479 کا تعلق مسلمانوں سے اور 119 کا تعلق عیسائیوں سے تھا تو باقی 388 کیسز کا تعلق کن سے تھا؟ 1) آپ کی خدمت میں اعداد وشمار کی مزید وضاحت کے لئے ’نیشنل کمیشن براے انصاف وامن‘ کی باقاعدہ رپورٹ کا متعلقہ متن پیش خدمت ہے: ’’1986ء سے ۲۰۰۹ء تک اس قانون کے حوالے سے پاکستان میں کُل ۹۶۴ مقدمات زیرسماعت آئے جن میں ۴۷۹ کا تعلق مسلمانوں ، ۳۴۰ کا احمدیوں سے، ۱۱۹ کا عیسائیوں سے، ۱۴ کا ہندوؤں سے اور ۱۲ کا دیگر مسالک کے پیروکاروں سے تھا۔ ان تمام مقدمات میں سے کسی ایک میں بھی اس قانون کے تحت عملاً کسی کو سزاے موت نہیں دی گئی۔‘‘ 2) عباس اطہر کے حوالے سے آپ کا سوال ہے کہ 1927ء سے 1986ء تک 295 کا صرف ایک ہی مقدمہ درج ہوا تھا۔ اب اتنے زیادہ مقدمات کیوں کر ہیں ؟ ظاہر ہے کہ جب 295بی اورسی کا قانون ہی موجود نہ تھااور عوام الناس اس قانون کا