کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 73
مثال جب قرآن کریم ہمیں ﴿واعدوا لهم ما استطعتم من قوة﴾ کی ہدایت دیتا ہے تو اس سے مقابلتاًبہتر دنیوی اسباب کے حصول کی جستجو بھی اُمت ِمسلمہ پر عائدہوجاتی اوردورِ حاضر کے تناظر میں سائنس وٹیکنالوجی کا حصول واجب ہوجاتا ہے۔ اللہ کی بندگی کوہی اصل ہدف سمجھ لینا اور اللہ کی عبادات کو انجام دینے پر اکتفا کرلینا ہمارے ملی تحفظ اور فریضۂ ابلاغِ دینی کی ادائیگی کی دنیا میں کافی بنیاد نہیں ہے بلکہ ہمارا دین ہی ہمیں اسباب کے حصول کی بھی تلقین کرتا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم تحفظ کے ان ذرائع ووسائل کو نظر انداز کردیں ۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمان کا مطمح نظر اور مقصود وہدف اللہ کی بندگی اور دنیا میں صلاح وخیر پر عمل پیرا ہونا ہے، تاہم اس دنیا کے دارالاسباب ہونے کے تحت سائنس ایک ضرورت ہے اور اس کا استعمال ضرورت کے ہی درجے میں ہوگا۔ یہ تو سائنس کا وہ استعما ل ہے جو اقوام وملل کے مابین غلبہ کےلئے ضروری ہے، کیونکہ اسلام کو برداشت کرنے کی بجائے سارا کفر مل کر اس کی بیخ کنی پرمجتمع رہا ہے جیسا کہ نصوص سے معلوم ہوتا ہے۔علاوہ ازیں سائنس کا ایک مقصد دنیا کو باسہولت ومنظم بنانا بھی ہے۔ سائنس کا یہ پہلو دنیوی زینت کے حصول کی جستجو کرتا ہے۔ اس کی بھی اسلام میں ایک حد تک مخالفت نہیں ہے، کیونکہ مسلمان آخرت کی کامیابی کے اصل ہدف کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی زیب و زینت کو اختیار کرسکتا ہے۔ اسلام رہبانیت کا دین نہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو اسلام پرعمل کرنے کی صورت میں حیوٰۃ طیبہ کا وعدہ دیا ۔ مسلمانوں کو دین کے ساتھ دنیا کے حسنہ ہونے کی دعابھی سکھلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا کہ’’ کون ہے وہ جو دنیوی زینت کو اللہ کے بندوں پر حرام کرتا ہے؟ دنیا میں یہ زینت مسلمان وکفار دونوں کو ملتی ہے، جبکہ آخرت میں یہ زینت صرف اللہ والوں کے لئے خاص ہے۔‘‘ اگر مقالہ نگار تصوف کی طر ف اپنے رجحان کے سبب دنیا سے نفور اور نفس کشی کو اسلام کا مقصد بتا رہے ہیں ، تو یہ ایک دوسری انتہا ہے جس کے بالمقابل سائنس وٹیکنالوجی واقعتاً امر حرام نظرآتی ہے۔ لیکن واضح ہے کہ تصوف کا یہ نظریہ خود اس قابل ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔اسلام کا اصل ہدف آخرت کی اصلاح ہے، تاہم دنیا میں مطمئن اور پرسکون زندگی بھی