کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 72
ہیں ۔ مگر اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ عجیب بات ہے کہ قرآن تمہارے پاس تھا او رقرآن میں مستور و مخفی تمام علوم کافروں کو مل گئے جن میں سے کسی ایک سائنس دان نے کبھی بھول کر قرآن نہیں پڑھا او رنہ قرآن کے ذریعے کوئی سائنسی فارمولا دریافت کیا!!
مختصر تبصرہ اَز مدیر: سائنس کے بغیر مسلم اُمّہ کی ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا! ملتِ اسلامیہ سائنس وٹیکنالوجی کی طرف رجوع کرکے اپنے زوال کا مداوا کیوں نہیں کرلیتی؟ قرآنِ کریم میں سائنسی علوم کو کیوں موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا؟ اس طرح کے خیالات آئے روز ہم سنتے رہتے ہیں ،اور اب یہ شکوہ ایک باقاعدہ مکتبِ فکرکی شکل اختیارکرگیا ہے جس کی قیادت حسین نصر اور ان کے ہم خیال لوگ کررہے ہیں ۔
زیر نظر مضمون کے فاضل راقم سائنس وٹیکنالوجی کا انکار کرنے کی بجائے اسے ترقی کا واحد راستہ اور اس کی معراج سمجھنے کے نظریے کے شدید ناقد ہیں۔ ان کے خیال میں اس طرزِ فکر سے اسلام کا اصل مقصود جو اللہ کی معرفت وخشیت، اس کی عبادت، دنیا میں خیر وصلاح کوپھیلانا اورآخرت کی تیاری وغیرہ پس پشت چلے جاتے ہیں ۔ الزامی طرز ِاستدلال قائم کرتے ہوئے مقالہ نگاراستفسار کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے تین براعظموں کو سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر کیوں کر فتح کرلیا؟ خیرالقرون کیوں سائنس وٹیکنالوجی سے ’مزین‘ نہ ہوسکا؟ صحابہ کرام میں کون سے نامور سائنس دان تھے؟ اللہ تعالیٰ نے دور ِنبوت میں سائنس وٹیکنالوجی کی موجودگی اور اس دور کے ترقی یافتہ تہذیب وتمدن اوریونیورسٹیوں کے باوجود اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے کوئی وافرحصہ کیوں عطا نہ کیا؟ اس کے بالمقابل دلوں اور کائنات کو مسخرکرنے والی جو ہدایت اللہ نے اپنی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، وہ بھی ظاہری وسائل علم کے بجائے قلب اطہر پر براہِ راست ہی نازل ہوئی۔یہ ان کے موقف کا ایک غالب پہلو ہے جو واقعتاً قابل غور ہے!
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام مجرد سائنس کا مخالف نہیں ۔ ذاتِ باری تعالیٰ پر اعتقاد واعتماد رکھنے کو شرطِ ایمان ٹھہراتے ہوئے ،دنیا کے دارالاسباب ہونے کے تحت اللہ تعالیٰ نے عملی رویہ کے طور پر اُمت ِمسلمہ کو دنیوی اسباب کی جستجو کی تلقین کی ہے۔بطورِ