کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 71
اُمورِ دنیا سے متعلق علوم یعنی علومِ عقلیہ اور مال و دولت ہی راس العلم تھا۔ وہ پیغمبر کو عام انسانوں کی طرح عام لوگوں کے ہم رکاب دیکھتے تھے تو اُنہیں حیرت ہوتی تھی۔
ان کا یہ اعتراض بظاہر درست تھا ،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو مافوق الفطرت تصور کرتے تھے۔ جنات کے ساتھ انکے تعلق کی نوعیت اور ان کے اکرام کے واقعات جو تاریخ عرب اور کلام عرب ملتے ہیں ، اس نقطہ نظر کی تشریح میں معاون ہوسکتے ہیں :
﴿ وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ١. لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًاۙ اَوْ يُلْقٰۤى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا١. وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ﴾ (الفرقان:7، 8)
’’یہ کیسا رسول ہے جوکھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں ) کو دھمکاتا؟ یا اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کوئی خزانہ ہی اُتار دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا۔اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لیے ہو جس پرجادو کر دیا گیاہے۔‘‘
﴿ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا ﴾ (الفرقان:30)
’’اے میرے ربّ !میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا۔‘‘
یہ آیت صرف عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفار مشرکین کے لیے نہیں ہے، اس عہد کے جدیدیت پسند مسلمانوں کے لیے بھی ہے جنہوں نے اس قرآن کی تضحیک کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ قرآن کے معنیٰ Hermenetiesسے معین ہوں گے، کبھی کہتے ہیں کہ کلام عرب سے اخذ ہوں گے، کبھی کہتے ہیں کہ اس کے جو معنی عہد رسالت میں تھے، اب وہ نہیں ہیں ۔
ان میں جوبہت زیادہ جری ہیں ان کو شکوہ ہے کہ اس قرآن کو لے کر ہم کیا کریں ، اس میں نہ سائنس ہے، نہ سوشل سائنس، نہ منطق۔ اس کی آیات سے نہ ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں ، نہ ہوائی جہاز، یہ قرآن عہدِ حاضر میں کسی کام کا نہیں ہے۔ نعوذباللہ، دوسری جانب معذرت خواہ سادہ لوح اور جاہل مفکرین اسی قرآن سے تمام مغربی، مادی، عقلی اور سائنسی علوم کو ثابت کررہے