کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 70
دی؟ او راندلس عظیم سائنسی ایجادات کے باوجود اپنا تحفظ کیوں نہ کرسکا کہ وہاں کوئی مسلمان باقی نہ بچا؟
یہ سوال اہم ہے کہ ہمسایہ اقوام کی مادّی ترقی ،تہذیب، سائنس اورتعمیرات سے اُمّ القریٰ کے مسلمان کیوں مرعوب و متاثر نہ ہوئے؟ اور مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان فنون اور علوم ِعقلیہ کی درآمد میں کیا امر مانع رہا؟ اس سوال پربھی غور کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہمسایہ اقوام کے علومِ عقلیہ اور محیر العقول فلسفہ و سائنس سے اگر مرعوب ہوجاتے تو کیاوہ روم و ایران کو فتح کرسکتے تھے؟ رومی اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ایران کو فتح نہ کرسکے، لیکن مسلمانوں نے نہ صرف سرزمین ایران کو فتح کرلیا بلکہ اس خطے کے لوگوں کے قلب بھی تسخیر کرلیے اورعظیم الشان رومی سلطنت کا بھی خاتمہ کردیا۔ مسلمانوں کے پاس روم و ایران کی سائنس و ٹیکنالوجی کے مقابلے میں صرف ایمان کی قوت تھی۔ ان قوتوں کا خاتمہ کرنے والے ان ختم ہونے والی سلطنتوں کی مادی ترقی ، علومِ عقلیہ کے مقابلے میں کس حیثیت او رکس مقام کے حامل تھے، اس کے لیے تمام مروّجہ تاریخوں کا مطالعہ کرلیا جائے۔
قرآن اور صاحبِ قرآن پر اعتراضات کی روش
کفارِ مکہ جب ایک اُمّی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزانہ کلام کے سامنے عاجز رہ گئے تو اُنہوں نے یہ اعتراض کیا تھا:
﴿ وَ قَالُوْۤا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا ﴾(الفرقان:5)
’’یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں ۔‘‘
صرف یہی نہیں بلکہ کفار کو یہ اعتراض تھا کہ یہ کیسا پیغمبر ہے جس کے ساتھ فرشتوں کےلشکرنہیں ، جو ہماری طرح بازاروں میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور ہم سے ہم کلام ہوتاہے۔ اسے علم، مال، دولت، شان و شوکت یعنی مادی طور پر کسی بھی شے میں ہم پربرتری حاصل نہیں ۔ یہ مادہ پرست جس چیز کو علم سمجھتے ہیں اور جس منہاجِ علم میں کھڑے تھے، وہاں دنیا اور