کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 7
1961ء کے ویانا کنونشن کا ابتدائیہ اور آرٹیکل (1)41 پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کنونشن کا مقصد ہرگز ہرگز مجرموں اور جاسوسوں کا تحفظ نہیں تھا۔ امریکا کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معاہدہ کیا ہوا ہے او راگر ہم نے ریمنڈ کو امریکا کے حوالے نہ کیاتو پاکستان کے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں ریمنڈ کو تو نارمل استثنیٰ حاصل ہے او ریہ کہ استثنیٰ کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔
یہ دھمکی بھی دی جاتی ہے کہ امریکا بہت طاقتور ملک ہے، سپر پاور ہے۔ پاکستان بہت کمزور ملک ہے۔ پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہے۔ پاکستان ریمنڈ کو حوالے نہ کرکے امریکی امداد سے ہاتھ دھو بیٹھے گا او رکسی بھی طورپر اپنی معیشت صحیح نہیں کرسکے گا، لیکن میرا سوال امریکی غلاموں سے یہی ہے کہ کیا غریب کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟ کیا ایک کمزور ملک اپنی خود مختاری کو برقرار نہیں رکھ سکتا؟ کیا قرضے کے عوض اپنے گھر کے دروازے غیروں او رطاقتور غنڈوں کے لیے کھول دیئے جاتے ہیں ؟ اگر ریمنڈ کے قتل کو ویانا کنونشن کی آڑ میں چھوٹ دے دی جائے تو کیا یہ ملک کے لیے آسان نہ ہوجائے گا کہ وہ اپنے دشمن ممالک میں اپنے سفارتکاروں کے ذریعے قتل وغارت کرادیں ؟
[’کس سے منصفی چاہیں ؟‘ انصار عباسی،:14/فروری 2011ء ]
(2) گہرا تاریک راز
دریا کی لہروں کے خلاف کب کون تیر سکا ہے؟ تاریخ میں جب طوفان اُٹھتے ہیں تو تنکے راہ نہیں روکتے! لاہور کا سانحہ تو بہت اذیت ناک ہے کہ شمائلہ سمیت چار زندگیاں چلی گئیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے انجام میں ، لیکن یہ محض ایک المیہ نہ رہے گا۔
رنگ لائے گا لہو! پے درپے واقعات میں جن کا سان گمان تک نہ تھا،قدرت کے اشارے ہیں ۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک جواں سال خاتون جس کے سامنے پوری زندگی پڑی تھی، اس طرح جان ہارے گی کہ باقی رہنے والی ایک حیران کن داستان وجود پائے گی۔ اس کی موت ہمیشہ یاددلاتی رہے گی کہ اللہ کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کی اشرافیہ کس قدر