کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 69
ملی۔ ایک جانب وہ عہدِ عباسی کو عہد ِملوکیت بھی قرار دیتے ہیں ، ملوکیت کو تمام گناہوں کی جڑ کہتے ہیں تو دوسری جانب اس ملوکیت سےنکلنے والی سائنس کو عظیم اسلامی سرمایہ تسلیم کرتے ہیں اور اس سرمایے کے دوام کے لیےکوشاں رہنے کو مقصود ِقرآن اور مطلوبِ رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں ۔
ملوکیت کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دینا تاریخی طور پر خالص سیاسی مادی اور دور جدید میں خالص مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ فکر ہے جو جمہوریت اور جدید مغربی تصورِ تاریخ سے برآمد ہوا ہے جس کی عمر تین سو سال سے زیادہ نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کو ملوکیت کی تاریخ سمجھنا ردّعمل کی نفسیات سے برآمد ہونے والا نتیجہ ہے جو جمہوریت کے کفر سے خاص تعلق رکھتا ہے اور حاکمیت ِجمہور کے ذریعے حاکمیتِ الٰہ کے تصور کو جڑ/ بنیاد سے ختم کردیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ نقطہ نظر اپنی تاریخ کا انکار ہے۔ جو ملت اپنی تاریخ کو بالکلیہ ردّ کردے، وہ صحرا میں تنہا کھڑی ہوگی اور سراب کی تلاش میں رہے گی۔
اُمت ِمحمدیہ نے سائنسی علوم کی ترویج کو اپنا مطمح نظر کیوں نہ بنایا!
حسین نصر کے ان تضادات کی تشریح و توجیہ کے لیے ہمیں کچھ او رلکھنے کی ضرورت نہیں ، حسین نصر اور مکتبہ روایت سے وابستہ مفکرین اسلامی سائنس کی نہایت عالمانہ اور پرجوش وکالت کے باوجود یہ نہیں بتا سکے کہ مسلمان کا دور ِعروج تو عہد ِرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ خلافتِ راشدہ ہے اور بلا شبہ خیرالقرون ہے،لیکن اس عظیم عہد اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زرّیں ادوار میں سائنس کی ترقی کے لیے کیا لائحۂ عمل مرتب کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ خیرالقرون سائنس کی عظیم ترقی سے کیوں خالی رہا؟ کیا علومِ نقلیہ، روحانیت اور شعورِ ایمانی کے مقابلے میں علوم عقلیہ کی ذرہ برابر بھی وقعت نہیں تھی۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کتنے سائنس داں تھے، سائنس کے بغیر ہی مسلمانوں نے تین برّاعظموں کو کیسے فتح کیا؟
اُمت ِمسلمہ کا اصل کردار وہ ہے جب وہ مادی طور پر نہایت ہلکی اور اخلاقی و روحانی طور سے سب پر فضیلت کی حامل تھی یا وہ دور جب اسے دنیا میں مادی طور پر برتری حاصل ہوگئی تھی۔ اگر مادی دور بہتر تھا تو اسی دور میں تاتاریوں جیسی کمزور قوم نے اُنہیں کیسے شکست دے