کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 68
منقسم ہے۔ ہیگل کے خیال میں ان کی تعداد 105 ہے۔کانٹ کے خیال میں کوئی عقل مند خودکشی نہیں کرسکتا۔ ہیگل کے خیال میں خودکشی انسان ہی کرتے ہیں ، جانور کبھی خود کشی نہیں کرتے۔کیا عہدِ حاضر کا انسان جانور سے بھی گیا گزرا ہے یا خودکشی کوئی قابل فخر کام ہے۔ عہد ِحاضر میں زندگی اتنی اذیت ناک کیوں ہوگئی ہے؟!
زندگی یقیناً اذیت ناک ہے، اس لیے کہ عہد حاضر کے انسان کی آرزوئیں اور تمنائیں میڈیا اور اشتہارات کی صنعت نے بہت بڑھا دی ہیں ۔ اس کے نتیجے میں انسان Scarcityکے جدید مادی و روحانی بحران کا شکار ہوگیاہے جس کا آخری حل خودکشی ہے۔ جزیرۃ العرب کی سخت ترین زندگی میں شب و روز بسر کرنے والے مشرکین نےکبھی خودکشی نہیں کی مگر عہد ِحاضر کے عیش و عشرت اور سہولتوں میں آنکھ کھولنے والے وحشی اپنی جان پرکیوں کھیل رہے ہیں ؟ کیا بنیادی تغیر واقع ہوگیا ہے کہ اونٹ کی جلتی ہوئی پیٹھ پر بیٹھ کر تپتے ہوئے صحراؤں میں کوک پیپسی اورٹیٹرا پیک کے دودھ کے بغیر سفر کرنے والا فرد کبھی زندگی سے بیزار نہیں ہوتا تھا،جب کہ عہد ِحاضر کا عیاش فرد یہ تمام سہولتیں ، مراعات، تعیشات، مل جانے کے باوجود مرجانا چاہتا ہے تو کیوں ؟ اگر عہدِجدید کے مسلم مفکرین ان باریکیوں ، نزاکتوں سے واقف نہیں تو وہ خطبہ جمعہ سننا ترک کردیں اور اپنے لیے ہیگل کے جدلیاتی افکار پر مبنی دَجل سےنیا خطبہ جمعہ تیار کریں ۔ [خود کشی کی تفصیلات کے لیے انٹرنیٹ پربے شمار معلومات میسر ہیں ]
سائنس وٹیکنالوجی کے مدح خواں
حسین نصر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر تہذیب کو سائنسی ترقی اس قوم کے دورِ زوال میں ملی، لیکن اس تاریخی تجزیے کو تسلیم کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کی سائنسی ترقی کے دورِ عروج کو ہی اصلا ًدور ِعروج سمجھتے ہیں ، اسے زوال کی علامت کے طور پر قبول نہیں کرتے او راس امر پر تعجب کرتے ہیں کہ اس عروج پر زوال کیوں آگیا؟ اور اس زوال سے عروج کے سفر کا راستہ کیسے نکالا جائے؟ یعنی دنیا کی تاریخ میں تمام تہذیبوں اور اقوام میں مسلمان وہ واحد تہذیب ، قوم یا اُمت ہےجس کو سائنسی ترقی دورِ زوال میں نہیں مسلمانوں کے دورِ عروج میں