کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 67
مفکرین بڑی حسرتوں سے دیکھتے ہیں او رجیسے ہی کسی یورپی ملک سے سفر کرکے آتے ہیں ،فوراً مدح و ثنا کے لیے سفر نامے لکھتے او راسلام سے ٹریفک کا نظام ثابت کرنےلگتے ہیں۔مغرب میں محبت، خاندان،رشتوں ، روابط، مذہب، اقدار اور اخلاقیات کی موت کے باعث لوگوں کی زندگی بے معنی[meaningless]ہوچکی ہے۔ اس کو معنیٰ دینے کا طریقہ گینیزبک آف ورلڈ ریکارڈ ہے، مگر زندگی پھر بھی بے معنی ہی رہتی ہے۔ نہ خاندان ، نہ ماں ، نہ بیوی نہ بچے، آدمی کس کے لیے جیئے؟ کس کے لیے مرے؟ کس کے لیے قربانی دے؟ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے ہی لیے مرجائے۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں یہ ’فاتحانہ موت‘ آج مغرب کی پسندیدہ تہذیب ہے جسے تیزی سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ عہد ِحاضر کا سب سے بڑا فلسفی گلزڈلیوز[Gills Delluze]اس عہد کے مسائل پر سوچتے سوچتے پاگل ہوگیا اور وہ ان مسائل کا کوئی جواب نہ دے سکا تو اس نے ہسپتال کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ اسے صدمہ ہے کہ انسان ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ باپ بیٹی ،ماں اور بیٹے کے رشتوں میں مساوات کے فلسفے کے باوجود ابھی تک احترام قائم ہے۔ یہ تعلقات ابھی تک مکمل ناپاک نہیں ہوئے۔اسے شکایت یہ ہے کہ [Incestuous Relations]عام کیوں نہیں ہوگئے۔ حالانکہ مغرب میں مساوات کے فلسفے کے باعث حقیقی خونی رشتوں میں جنسی جبر کی شکایات عام ہیں ۔تاریخ انسانی میں کبھی کسی فلسفی نے اس بےبسی کے ساتھ اپنی جان کانذرانہ پیش نہیں کیا۔ جدید مغربی تہذیب اس کی سائنس، ٹیکنالوجی او راس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل گلزڈلیوز کی خودکشی کا سبب ہیں ۔ سوئٹزرلینڈ، ناروے، سویڈن، جرمنی اس وقت عصری تاریخ کے ترقی یافتہ، امیر، سہولتوں سے آراستہ اور جدید فتوحات سے مزین بہت محدود آبادی کے حامل معاشرے ہیں ۔ لیکن سب سے زیادہ خودکشی کی شرح انہی خطوں میں ہے تو آخر کیوں ؟ مادی ترقی کی معراج پر پہنچنے کے بعد بھی کیا کسی شے کی ضرورت باقی رہ گئی؟ انسان خود کشی کیوں کرتا ہے؟ کیااسے خود کشی کرنی چاہیے؟ خود کشی کیوں کی جاتی ہے؟ فلاسفہ کے یہاں اس پر دلچسپ بحث ملتی ہے۔ کانٹ کے خیال میں انسانی ذہن بارہ حصوں میں