کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 66
منبع کچھ او ربھی ہوسکتا ہے؟
مغرب کی کھوکھلی اور بے چین تہذیب
کیا اس جدید تہذیب و تمدن اور طریقوں کو لفظ بہ لفظ ’ارتقاے زمانہ‘ کے نام پر اختیار کرلیا جائے جس کے نتیجے میں لوگوں کا زندگی بسر کرنا بلکہ مغرب میں لوگوں کا مرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے؟ برطانیہ جیسے ملک میں تدفین کی رسومات پر چار پانچ ہزار پونڈ خرچ ہوتے ہیں لہٰذا اب تدفین کی رسم کے لیے بھی انشورنس متعارف کرایا گیاہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں کینسر جیسی کئی موذی اور مہلک بیماریوں کے جدید علاج نے موت کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔علاج سے مرنے کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے۔ سات ہزار سال کی تاریخ میں سترہ تہذیبوں میں جہاں کبھی خود کشی کی روایت نہیں رہی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ خود کشی جدید طرزِ زندگی کے طور پر عام ہورہی ہے۔ غربت، معیارِ زندگی کی آرزو ، خوابوں سے بھرپور اَلف لیلوی پرتعیش زندگی، چکا چوند سے معمور ، زرق برق خوابناک طرزِ حیات جو صرف میڈیا پر دکھائی دیتا ہے، جدید ایجادات اور اُن کی اشتہار بازی سے بے شمار مہلک دماغی، جسمانی اور روحانی امراض مسابقت کی دوڑ میں ناکامی کے باعث پیدا ہورہے ہیں ۔ان مہلک امراض کے علاج اتنے مہنگے ہیں کہ زندگی بہ خوشی ہار دینا اور خود کشی کرلینا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ جو موت قسطوں میں لاکھوں روپے خرچ کرکے ملتی ہو، جس کے باعث خاندان، جائیداد، عزتیں اور عورتیں سب بک جاتی ہوں مگر مریض پھر بھی صحت مند نہ ہوتا ہو تو سب کے لیے خودکشی کے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اسی لئے خود کشی عام ہورہی ہے خواہ وہ دنیا کے غریب علاقے ہوں یا امیر خطے، اس کا سبب شاعر عارف شفیق نے صرف دومصرعوں میں بتا دیا ہے: ؏
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا ،لیکن امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
کسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں اور کسی کے پاس کھاکےمرنے کے لیے ہیرا ہے، یہ خدا بے زار معاشروں کا انجام ہے!!
خودکشی صرف غریب آدمی نہیں کررہا، بڑے بڑے اُمرا کررہے ہیں ؛ ان یورپی ممالک میں ہورہی ہے جہاں آمدنی اور عیاشی سب سے زیادہ ہے۔ جن کو ہمارے جدیدیت پسند مسلم