کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 65
کے تاریخی سفر کے کفر کو عام کرتی ہے۔ تاریخ کے اس جدلیاتی نظریے کے مطابق ہر اگلا دور پچھلے دور سے بہتر ہوتا ہے اور ہر آنے والی نئی نسل گزر جانے والی نسلوں سے بہتر، زیادہ عاقل و بالغ وسیع النظر، اَعلم اور زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہے۔
اسلام اور مغربی تہذیب میں امتزاج ناممکن ہے!
اسلامی تہذیب و تاریخ و علمیّت میں اس قسم کے افکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔ عہد رسالت سے بہتر زمانہ اور بہتر دور نہ آسکتا ہے، نہ آسکے گا اور اس دور کا احیا، اس کی جدوجہد، اس روشنی کی جستجو اور جدوجہد کی خاطر زندگی وقف کردینا یہی مطلوبِ دین ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عہدِ رسالت سب زمانوں سےبہتر ہے تو اس اعتراف و اعلان کا کیا مطلب ہے؟ کیا عہدِ رسالت کا طرزِ معاشرت ،تہذیب، اندازِ نشست و برخاست، سادگی، جمالیات اور سادہ ترین زندگی اب ہمیشہ کے لیے متروک ہوچکے ہیں یا اس کا احیا ممکن ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارا طرزِ زندگی فرعون کا ہو، اور اس طرزِ زندگی میں خیرالقرون کی روحانیت کو داخل کردیا جائے؟ کیادنیا کو ترجیح دینے والے نفس، نظامِ زندگی، معیشت، معاشرت تہذیب وثقافت میں عہدِ رسالت کی روحانیت داخل کی جاسکتی ہے؟
جدید طرزِ زندگی کے اندر اسلام کی روحانیت داخل کرنے کی آرزو محض سادگی کی انتہا ہے لہٰذا جب بھی دنیا پرست طرزِ زندگی دین میں داخل ہوگا اور دین دوسرے دروازے سے رخصت ہونے کے بجائےاس جدید مادی ڈھانچے میں تعمیر و تشکیل کے مرحلے سے گزر کر جدید مادیت کی اسلام کاری کرے گا تو روحانیت اس پیکر مادی سے خود بخود رخصت ہوجائے گی۔ دو مختلف طرز ِزندگی دو مختلف و متضاد مابعد الطبیعیات سےنکلنے والے ادارے، اقدار و روایات، علوم، رویے، اسالیب اور مناہج ایک تہذیب میں نہیں سموئے جاسکتے۔ اس لیے گزشتہ سو برس میں عالم اسلام کے اخلاقی روحانی بحرانوں کا سبب یہی دوئی [Dualism] ہے جس کو جاری رکھنے کی علمی دلیلیں دنیا پرست اہل علم مسلسل دے رہے ہیں ۔
نفس پرستی اور نفس کشی کی متضادروایات ایک ساتھ نہیں چل سکتیں ۔ کیا خیر القرون کے عہد کی کیفیات اس دور کی سادگی اور دنیا سے کم سے کم تمتع کی روایت کے بغیر روحانیت کا