کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 64
ان آيات ميں بتا ديا گیا کہ قیامت تک کے لیے سرچشمۂ روشنی کے طور پر کل دنیا کے لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کافی ہیں جس طرح ایک سورج سارے جہاں کے لیے کافی ہوتا ہے۔
لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت ِشب جہاں جہاں
اک طلوعِ آفتاب دشت و چمن سحرسحر
اہل کفر سے جہاد کے لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو علومِ عقلیہ اور آلاتِ سائنس کے بجائے قرآن دیاگیا اورکہا گیا کہ اس کو لے کر کفار سے زبردست جہاد کرو۔ عہدِ حاضر کامسلمان اس قرآن کو ایک طرف رکھ کر جہاد کا علمبردار ہے۔ روزِ قیامت اس اُمت سے اللہ تعالیٰ یہ سوال کریں گے کہ اس نے اس ذمہ داری کو کس درجے میں پورا کیا؟
اسی لیے جمعہ کے خطبوں میں دنیابھر کی مساجد میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے کہ ((خیر القرون قرني)) سب سے بہترین زمانہ عہدِ رسالت کا زمانہ ہے اور سب سے بہترین لوگ السابقون الأولون ہیں۔جب ہم کہتے ہیں کہ خیر القرون سب سے بہتر زمانہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خشیت و عبادت ِالٰہی، آخرت کے خوف اور دنیا سے بے رغبتی کے اعتبار سے وہ عہد مثالی و معیاری عہد تھا، جب آخرت غالب تھی اور دنیا غیر اہم۔ کسی دل کو دنیا محبوب و مطلوب نہ تھی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسا سپہ سالار بھی دنیا سے کوئی رغبت نہ رکھتا تھا۔ جب انتقال ہوا تو ترکے میں صرف ایک گھوڑا اور تلوار تھی، وہ بھی اُمت کے لیے وقف فرما دیئے تھے او راس بات کا رنج تھا کہ شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ خیرالقرون کا یہی مطلب ہے کہ دنیا غیر اہم اور مری ہوئی بکری سے زیادہ حقیر اور آخرت ہر شے سے زیادہ اہم ہوجائے، اس یقین کے بغیر اُمّت کا عروج ممکن نہیں ۔ ان معنوں میں مسلمانوں کے لیے اُمید و آرزو، روشنی و نور، معیار و وقار و اعتبار اور عظمت و شوکت کی ہر راہ ماضی سے پیوستہ ہوکر عہد ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوجاتی ہے اوراس اُمت کی ذمہ داری یہ بن جاتی ہے کہ وہ تاریخ کے پہیے کو مسلسل عہدِ رسالت کی طرف موڑنے، خیر القرون سے وابستہ رکھنے او رپیچھے کی طرف بار بار پلٹانے کی کوششوں میں مصروف رہے اور ہر اس حرکت، جدوجہد، کوشش کو ترک کردے جو مارکس، ہیگل اور مغربی فلاسفہ کے کافرانہ فلسفوں کے تحت ارتقا