کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 63
لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے۔ تم اُن سے نہ ڈرو، مجھ ہی سے ڈرو تاکہ میں اپنے نعمت تم پر پوری کروں ، اس لیے بھی کہ تم راہ ِراست پاؤ۔‘‘
یہ آیت کفر و اسلام میں حد کا تعین کرتی ہے۔ ارشاد ہے اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو: ﴿وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا١. لَا نَسْـَٔلُكَ رِزْقًا١. نَحْنُ نَرْزُقُكَ١. وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى﴾(طٰه:132) مؤمنین کو تجارت خرید و فروخت اللہ کی یاد، اقامت ِنماز اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی:
﴿رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ١۪ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ﴾ (النور:37)
’’ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور آنکھیں اُلٹ پلٹ جائیں گی۔‘‘
نماز کے بغیر ایمان معتبر نہیں ہے، اس لیے سورۂ توبہ میں مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی تویہ بھی کہا گیا کہ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کردیں تو اُنہیں چھوڑدو۔ (آيت:5)
نماز اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی مخلوق کا حق ہے۔ ان دونوں حقوق کے بغیر ایمان قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جنگ كی اور فرمايا کہ اگر یہ اونٹ کی رسّی کے برابر زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کریں گے تو ان کے خلاف جنگ ہوگی، اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں ہوسکتی !!
دور ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احیا ہی مطلوب ِدین ہے!
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا :
﴿ وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا ﴾
’’اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اُٹھا کھڑا کرتے پس اے نبی ! کافروں کی بات ہرگز نہ مانیئے اوراس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کیجئے۔‘‘ (الفرقان: 51)