کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 61
اَصْحٰبِ مَدْيَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِ١. اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ١ۚ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ﴾ (التوبة:70) ’’کیا انھیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں : قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم اور اہل مدین اور موتفکات کی۔ ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیل لے کر پہنچے، اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘ اور تمہارا ربّ بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ اگر وہ ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑنا چاہتا تو ان پر فوراً عذاب بھیج دیتا:﴿ فَاَتْبَعَ سَبَبًا ﴾ (الکہف:85) اسی لیے اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے لیے لازم کرلیا ہے۔(الانعام:35) اس رحمت کے باعث وہ فوراً سزا نہیں دیتا، سورۃ فاطر کی آیت 45 میں ارشاد ہے: ’’اگر وہ کہیں لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑتا تو زمین کی پشت پرایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا ،لیکن وہ ان کو ایک معین مدت تک مہلت دے رہا ہے۔‘‘ لہٰذا وہ انسان کو مہلت ِعمر دیتا ہے کہ وہ عہد اَلست کو یاد کرکے اپنے خالق کی پناہ میں آجائے۔’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟‘‘ (فاطر:37) انسان نے وہ قرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا :﴿ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗ﴾ (عبس: 23) یعنی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے نیکیوں میں سبقت کرنے والے:﴿ اُولٰٓىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ﴾ (المؤمنون:61) اس آيت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لیے عرصۂ حیات کا تعین اس لیے فرمایا کہ ان کے اندر جو خیر مخفی ہے، اس کوظاہر ہونےکا موقع عطا فرمائے او ریہ عمر اس خیر کے ظہور میں آنے کے لیے بہت کافی ہے۔لیکن یہ انسان عہدِ الست کو یاد کرنے کے بجائے ویسی ہی بحثوں میں پڑ گئے جیسی بحثو ں میں پچھلی گمراہ قوموں کے لوگ پڑے تھے: ﴿كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤااَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا١. فَاسْتَمْتَعُوْا۠ بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا١. اُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ (التوبة:69)