کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 60
تو اس علم سے مراد سائنس و ٹیکنالوجی کا علم نہیں ، خالق کائنات کی معرفت اور آخرت کی حقیقت کا علم مراد تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ نےبچپن میں ہی حکم سے نوازا۔ ﴿ يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١. وَ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ﴾(مريم:12) جبکہ حکم کی یہ صفت دیگر انبیا کو نبوت کے ساتھ عطا کی گئی۔ یہ حکم کیا سائنس و ٹیکنالوجی تھا؟
اسلامی نظریۂ حیات
کفار و مشرکین کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ ان کے سامنے ان کے ربّ کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے:
﴿وَ مَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ﴾(يٰس:46)
ایسے تمام افراد اور تمام قوموں پر اللہ کا عذاب دراصل ان کے گناہوں کے باعث نازل ہوا: ﴿ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ﴾ (العنكبوت:40) اور مؤمنين كی كاميابی كا سبب یہ تھا کہ وہ گناہگار زندگی سے نفرت کرتے تھے، پاکیزہ زندگی بسر کرتے اور اس دنیا کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ذمے دار بنائے گئے :
﴿ وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا ﴾
’’ جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مؤمن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔‘‘ (الاسراء:19)
ا للہ اپنے بندوں کا نہایت خیرخواہ ہے:
﴿ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا١ۛۖۚ وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ١ۛۚ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَيْنَهَا وَ بَيْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِيْدًا١. وَ يُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١. وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ رحمہ اللہ ﴾ (آلِ عمران:30)
’’ جس دن ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی، اللہ اُنہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔‘‘
وه اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا .....
﴿ اَلَمْ يَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ١ۙ۬ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِيْمَ وَ