کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 6
8. پاکستان کو یقیناً ایک ذمہ دار ملک کی طرح بین الاقوامی قوانین کا احترام کرناچاہیئے مگر ایک خودمختار ملک ہونے کے ناطے کسی طاقتور ملک کی دھونس دھمکیوں میں آکر ویانا کنونشن کی غلط تشریحات بھی قبول نہیں کی جاسکتیں ۔ اگر ریمنڈ کو استثنیٰ حاصل ہوتا بھی تب بھی پاکستان کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 32 کے تحت امریکا سے یہ استثنیٰ واپس لینے کی درخواست کرنی چاہیے تھی کیونکہ ریمنڈ انتہائی خطرناک نوعیت کی مجرمانہ کارروائی میں ملوث پایا گیا ہے۔
9. ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41 کے مطابق یہ ہر سفارتکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرے۔ کیا ریمنڈ نے ایسا کیا....؟
10. امریکی دفتر خارجہ کی اپنی دستاویز کے مطابق:
"It should be emphasized that even at its highest leval, diplomatic immunity does not exempt diplomatic offecers from obligation of conforming with national and local laws and regulations. Diplomatic immunity is not intended to serve as license for persons to flout the law and purposely avoid liability for their actions. The purpose of these privileges and immunities is not to benefit but to ensure the efficient and effective performance of their official on behalf of their government."
حقیقت یہ ہے کہ ایک طبقہ ہمیں امریکا کی غلامی سے آزاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ان کی کوشش یہ ہےکہ جس طرح ماضی میں اور کاص طو رپر مشرف دور میں پاکستانیوں اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کو امریکا کے حوالے کیا جاتا رہا اور امریکا کی مرضی کے مطابق یہاں سب کچھ کیا جاتا رہا، وہ سلسلہ اسی انداز میں جاری رہے۔ کوئی امریکا سے پوچھنے والا نہیں کہ مشرف دور میں 1961ء کے اسی ویانا کنونشن کے آرٹیکل 45،44،39 کی کس کس نے دھجیاں اُڑائیں ، جب 2001ء میں پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا ضعیف کو شدید تشدد کے بعد پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے امریکیوں کے حوالے کیا تھا۔ ملا ضعیف کی زبانی سنائی گئی کہانی کے بعد کم از کم امریکیوں اور اُن کے مشرف جیسے پاکستانی حواریوں کو ’ویانا کنونشن‘ کانام لیتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے۔