کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 58
کسی قوم کے عروج کی ضمانت کیا سائنس وٹیکنالوجی ہیں ؟
تو کیا سائنس و ٹیکنالوجی کا انکار کردیا جائے؟
سوال انکار و اقرار کا نہیں ،اُصول کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو اس لیے تباہ نہیں کیا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئی تھی بلکہ اس لیے تباہ کیا کہ وہ گناہ کی زندگی میں بہت آگے بڑھ گئی تھی او رپیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھی او رکسی قوم کو عروج اس لیے عطا نہیں فرمایا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنی مقابل تہذیب سے بڑھ گئی تھی۔ استخلاف فی الارض کو پاکیزگئ قلب و نظر سے مشروط کیا گیاہے، سائنس و ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ فرضِ کفایہ کے درجے میں ہے، لیکن اب اُمّت صرف اس کے حصول کو واحد فریضۂ دینی تصور کررہی ہے۔ فرضِ کفایہ نے افضل ترین فرض کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ ہے فکرونظر میں تبدیلی، کہ فضیلت، برتری، کامیابی اور استخلاف کا واحد سبب محض سائنس و ٹیکنالوجی کو سمجھ لیا گیا ہے۔ پوری اُمّت اسی کی تعلیم و تحصیل کو افضل ترین علم تصور کررہی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے زوال کی رات مزید گہری ہورہی ہے۔
اُمید کا مرکز العلم اور الکتاب نہیں بلکہ وہ علم ہوگیا ہے جو مغرب نے تخلیق کیا ہے اور ہم صرف اسی علم کی آرزو سے تبدیلی کی صبح کا انتظار کررہے ہیں ۔ یہ وہ بنیادی تغیر ، رویہ اور سوچ ہے جس نے اُمت کے لیے بلندی کے تمام راستے مسدود و محدود کردیئے ہیں ۔ قرآن میں عروج و زوال سے متعلق آیات میں ایک آیت بھی ایسی نہیں بتائی جاسکتی جو عروج کو صرف اور صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول سے مشروط کرتی ہو ، نہ ہی استخلاف کی کسی آیت میں کسی نبی کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ زمین میں اقتدار کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے علم کی تدریس و تعلیم کو اوّلیت دیں گے۔ ہر جگہ صلوٰۃ، زکوٰۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس علم کو جو مرتبہ و مقام دیا گیا ہے، اس مرتبے و مقام سے اُسے ہٹا دیا جائے تو یہ عدل نہیں ، ظلم ہے۔ اس ظلم کے اقرار اور اس پر تین سو برس مسلسل اصرار کے باوجود اُمّت کا حال کیا ہے؟ ملائیشیا، ترکی، ایران، سوڈان، مصر اور پاکستان تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ دین میں آگے ہیں ، نہ دنیا میں بلکہ شکست کی رات مسلسل طویل ہورہی ہے۔