کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 57
فضیلت او ربھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔‘‘ اس فضیلت کا ایک اثر قرآن نے یہ بھی بیان کیاکہ اس گروہ کے کردار،اقبال اور گفتار کے باعث اللہ تعالیٰ اہل عالم کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا فرما دیں گے ۔ یہ عزت، محبت، برتری اور فضیلت سائنس وٹیکنالوجی کی بنیاد پر نہیں ، علم صحیح اور اعمالِ صالحہ کے صلے میں عطا ہوگی۔اس محبت کا سبب ان کی اخلاقی و روحانی ایمانی فضیلت ہوگی اورکچھ نہیں ۔ قرآن کے الفاظ میں : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا ﴾ (مريم:96، 97) ’’یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں ، عنقریب رحمٰن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔ پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کلام کو ہم نے آسان کرکے تمہاری زبان میں اس لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے ربّ سے اپنی اولاد کے لیے دعا فرماتے ہوئے یہ آرزو کی تھی کہ ﴿رَبَّنَاۤ اِنِّيْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ١ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْۤ اِلَيْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ ﴾ (إبراهيم:37) ’’ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کے جنگل میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔‘‘ یہ مرتبہ اور فضیلت تاریخ کے کسی بھی دور میں ، کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی وقت حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن جدیدیت کے زیر اثر عہد ِحاضر کےبعض راسخ العقیدہ مسلمان حلقے بھی اب اس فضیلت کے کچھ زیادہ قائل نہیں رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر فضیلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا او رکم از کم عصر حاضر میں صرف اخلاق اور کردار پیدا کرنے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا، بالفاظِ دیگر اُمت کی علمیّت اور مابعد الطبیعیات رفتہ رفتہ تبدیل ہورہی ہے!!