کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 56
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عہدکے عظیم الشان تمدنوں کے سامنے کھڑا کرکے دنیا کو قیامت تک کے لیے بتا دیا گیا کہ اصل علم و دانش اور روشنی و نور وحی الٰہی او رعلومِ نقلیہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس روشنی، نور اور دانش سے محروم معاشرے مادّی طور پر خواہ کتنے ہی عظیم الشان ہوں ، وہ تاریک ترین اورجہالت میں غرق ہیں اور اُن کو جہالت سے نکال کر روشنی میں لانا اُمت ِوسط کی بنیادی ذمہ داری ہے، جو صبح قیامت تک برقرار رہے گی۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن نے ’سراجِ منیر‘ کے نام سے پکارا، اس لیے کہ العلم، الکتاب آجانے کے بعد روشنی اورعلم آجاتا ہے اور’اُمّیت‘باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا قرآن نے اُمّی اُن کو کہا جو اپنی قوم کے ایک بے مثال فرد پر روشنی، نور، فرقان، میزان، فصل الخطاب، حکم، لب، ضیا، ذکر، حکمت، خیرکثیر اور العلم نازل ہونے کے باوجود اس سے دانستہ محروم رہے، جو الکتاب کے نزول کے باوجود اس نور سے پھوٹنے والے علم سے بے بہرہ تھے:
﴿ وَ مِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِيَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ﴾ (البقرة:78)
’’ان میں ایك د وسرا گروہ اُمیّوں کا ہے جوکتاب کا تو علم نہیں رکھتے بس اپنے بے بنیاد آرزوؤں او راُمیدوں کو لیےبیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں ۔‘‘
حقیقی علم کے حامل وعامل ہونے کا نتیجہ دین ودنیا کی سرفرازی ہے!
کتابِِ ہدایت سے محرومی اور العلم کے مقابلے میں وہم و گمان کی پیروی اور بے بنیاد اُمیدوں و آرزوؤں کے لیے سرگرمی’اُمّیت‘ہے اوراِسے ترک کرنا نور، روشنی، برہان، فرقان، عرفان، ایمان، سراج اور چراغ ہے۔ اس روشنی کانتیجہ وہ عظمت، رعب و دبدبہ، ہیبت و فضیلت اور اِعزاز و اکرام ہے جو حامل وحی گروہ کوروئے زمین پر عطا کی جاتی ہے:
﴿ كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١. وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١. وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِيْلًا﴾ (الاسراء:20،21)
’’تیرے ربّ کی طرف سے اس کی عطا ہر ایک کو پہنچتی ہے۔ تیرے پروردگار کی بخشش کہیں رکی ہوئی نہیں ۔ مگر دیکھ لو کہ دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت میں اس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے اور اس کی