کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 55
اصلاً اُمّی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ؛اہل یونان، روم، ہند، چین و ایران ہیں جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہیں ؛ جو اپنے مالک حقیقی کو پہچاننے سے قاصر ہیں ۔ جو اس نور سے محروم ہو، اس سے بڑا محروم کون ہوسکتا ہے؟ اُمّی ہونے کے باوجود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کس ذریعے سے نازل کیا گیا؟ کیا قلم سے؟ جس کی قسم سورۃ العلق میں کھائی گئی۔ کیا کتاب سے؟ جو اس عہد کے تمام بڑے تمدنوں میں موجود تھی۔ کیا قرطاس سے؟ جو اس عہد کے لوگوں کے لیے اجنبی نہ تھا۔ بلکہ علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِاطہر پر نازل کیا گیا کہ یہی قلب علم کا اصل سرچشمہ ہے۔ انبیا اسی قلب کو درست کرنے کے لیےبھیجے جاتے ہیں جس میں باطل نقب لگاتا رہتا ہے: ﴿ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ (البقرة:97) ’’ان سےکہو کہ جبرئیل علیہ السلام نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن آپکے قلب پرنازل کیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے وسیع فرما دیا اور آپ پر نبوت کا اختتام کردیا۔ آپ كافة للناس ہیں ، آپ کی ہستی کو اللہ تعالیٰ نے ابد تک کے انسانوں کی زندگی سنوارنے، ان کو کتاب او رحکمت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ﴾ (الجمعة:2) ’’ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُنھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور اُنھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ ان زمانوں کے لیے جو سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہونے کا دعویٰ کریں ، قرآن نے واضح کردیا کہ اس رسول کی بعثت ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں : ﴿ وَّ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ١. وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾ (الجمعة:3) ’’ اور دوسروں کے لیے بھی انھی میں سے جو اَب تک ان سے نہیں ملے۔‘‘