کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 54
نظام موجود تھا۔ مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح کی سڑکیں ، گلیاں ، بازار، مکان، سماعت گاہیں [Auditorium]اور یونیورسٹیاں موجود نہ تھیں جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے موہنجودڑو ، ہڑپا ، ٹیکسلا، یونان اور روم وغیرہ کی تہذیبوں میں موجود تھیں ۔ اتنی عظیم الشان تہذیبوں ، قوموں اور تمدنوں کے مقابلے میں جو ہر قسم کے علوم وفنون سے آراستہ تھیں ، ایک ایسی ہستی کو کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا جو نہ لکھنا جانتی تھی، نہ پڑھنا جانتی تھی: ﴿ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ﴾ (العنكبوت:48) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے او رنہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے؛ اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔‘‘ اصل علم وحکمت کیا اور اُمیّت کیا ہے؟ ایسی ہستی کا انتخاب کرنے کی حکمت مالکُ الملک کے سوا کون جان سکتا تھا؟ عرب میں یہودی بھی لکھنے کے فن سے واقف تھے مگر اس فن کی خالق کائنات کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی کہ یہودی اس کتاب کوبھلا چکے تھے جو زندگی کا سرچشمہ تھی لہٰذا اس سرچشمے سے لاتعلقی کے بعد کوئی علم اور کوئی ہنر پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اُمّی ہونے کی صفت کو عیب کے بجائے اس ہستی کے حق میں ہنر اور کمال قرار دیا گیا اور قرآن نے’اُمّی‘کے لقب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کو خود پکارا۔ یہ پکار، یہ اعلان اس امر کا استعارہ ہے کہ اے اہل عالم! تمہاری نظر میں جہل اور علم کے دائرے، اس کےاُصول و منہاج، پیمانے اور معیارات، اس کے اندازے،اس کو پرکھنے کے تمام طریقے او راس کی تمام تعریفیں بالکل غلط ہیں ۔ تم عظیم الشان عمارتوں ، کتابوں ، کتب خانوں ، اداروں ، مدرسوں ، فلسفوں ، سائنس و منطق کو علم سمجھتے ہو مگر یہ کیسا علم و عقل اور کیسی روشنی ہے کہ تم حقیقت ِکائنات اور مالکِ حقیقی کی معرفت سے محروم ہو۔ وہ علم جو تمہیں حقیقت الحقائق سے وابستہ نہ کرسکے، وہ قیامت تک علم نہیں ، جہل ہے۔ علم وہ ہے جو تمہیں اپنے خالق کی معرفت سے آگاہ کرے اور اپنی آخرت سنوارنے کے طریقے بتائے لہٰذا