کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 53
طور پر واقف ہوتے تھے، کیونکہ وہ قرآنِ مجسم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرۃ العرب کے گردوغبار، درودیوار، دیار و اَمصار، کوچہ و بازار اورنقش و نگار میں ایک نورانی و روحانی وجود کے طور پر چلتا پھرتا ہوا پاتے تھے۔ ایک لفظی قرآن تیس سپاروں میں بند تھا اور دوسرا عملی قرآن مکہ کے گلی کوچوں میں شب و روز اُن کے درمیان موجود تھا جس کے ایمان کی حرارت سے پتھردل پگھل رہے تھے اور صحرا میں موجود ریت کے ذرّوں کوبھی شعور حاصل ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے گوشے ان کے لیے مہر جہاں تاب کی کرنوں کی طرح روشن تھے۔ یہ پیغام رسانی’ عین الیقین‘ کے درجے میں ہوتی تھی۔
بعثت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت قومِ حجاز کی تمدنی حالت
عالم عرب کے ایک جانب یونانی فلسفے، سائنس، منطق، تہذیب و تمدن کے آثار محفوظ تھے تو دوسری جانب ایران، چین، ہند او رروم کی تہذیبیں اپنے علوم و فنون کی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ تھیں ۔ فلسفہ، سائنس، ٹیکنالوجی اور علومِ عقلیہ میں جزیرۃ العرب ان اقوام سے مسابقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس قوم، بنو اسمٰعیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ ’اُمیون‘ تھے۔ صرف اہل کتاب اس خطے میں لکھنے پڑھنے سے واقف تھے۔ اس کے برعکس مدارس اور جامعات کے ذریعے تعلیم یونان، ہند، چین اور ایران کے خطوں میں عام تھی۔ ان خطوں سے متصل ماضی کی مِٹی ہوئی تہذیبیں : ہڑپہ، موہنجودڑو و ٹیکسلا کے آثار بھی اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آمد سے پہلے کی عظیم الشان قوموں اور ان کے عہد میں موجود مخالف تہذیب و تمدن کے علوم عقلیہ[Natural Philosophy, Science & Technology]سے کچھ عطا نہیں کیا گیا۔
چین، ہند ، روم، یونان اور ایران کی عمارات کے مقابلے میں مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ایک عمارت عہدِ رسالت میں تو کیا اس کے بعد بھی ماضی قریب تک تعمیر نہیں کی جاسکی تو آخر کیوں ؟ اُنیسویں صدی کے آخر تک مکہ معظمہ میں فراہمئ آب و نکاسئ فضلات[Water and Drainage System] کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا، جبکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے تین ہزار سال پہلے کی تہذیب موہنجودڑو میں نکاسی غلاظت کا زبردست