کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 52
نقطہ نظر ڈاکٹر نعمان ندوی عہدِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس و ٹیکنالوجی ترقی سائنس، ارتقا اور معیارِ زندگی کی بلندی کے مفروضات کی تلاش میں سرگرداں ہونے سے قبل اس سوا ل پرنہایت گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے کس موڑ پر تشریف لائے؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آئے تو اس دنیا کا کیانقشہ تھا؟ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت کے لیے جس خطے کا انتخاب کیا،اس کی جغرافیائی اہمیت و حیثیت کیا تھی؟ حرمین شریفین کی جغرافیائی اہمیت اور حیثیت مکہ مکرمہ قدیم اور جدید جغرافیہ دانوں کی تحقیق کے مطابق دنیا کے وسط میں واقع ہے۔ گویا کائنات کی مرکزی ہستی ختمئ مرتب صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کے مرکز میں مبعوث کیا گیا، اس بعثت کے ذریعے خانۂ کعبہ کی مرکزیت کو دنیا کے لیے ایک مرتبہ پھر ابد تک قائم کردیا گیا کہ اب پوری دنیا کو رہتی دنیا تک اس مرکز ِخداوندی اور اس مرکزی ہستی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دائمی تعلق قائم کرنا تھا جو تمام عالمین کے لیے رحمت اور كافةً للناس ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پوری دنیا کے لیے آخری، حتمی، قطعی اور ابدی پیغام ہے۔ جزیرۃ العرب کی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ دنیا کے تین برّاعظم اس سے ملتے ہیں ۔ حج کی عبادت کے باعث دنیا بھر کے تجارتی قافلے جزیرۃ العرب کے ذریعے اس سرزمین سے، جونہ صرف مرکز کائنات [Centre of Universe] بلکہ ازل سے ابد تک کے لیے مرکز رُشد و ہدایت بھی ہے؛ تجارت، کاروبار، حج اور اسفار کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اورپیغام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ان قافلوں کے ذریعے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں فطری طریقے سے پہنچ سکتا تھا۔ یہ پیغام لے جانے والے پیامِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف زبانی ترسیل نہ کرتے بلکہ پیغام دینے والے پیامبر کی سیرت اور شخصیت کے گوشوں سےبھی ذاتی