کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 5
حقیقت ہے کہ صرف اور صرف میزبان ملک کی وزارتِ خارجہ ہی اسStatusکو کنفرم کرسکتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ 1961ء کے سفارتی تعلقات ویانا کے کنونشن کے تحت استثنیٰ کا دعویٰ صرف اس صورت میں کیا جاسکتا ہے، جب اس کنونشن کے آرٹیکل (1)10 کے تحت ایسے سفارت کار یااہلکار کو میزبان ملک کی وزارتِ خارجہ باقاعدہnotify کردے۔ امریکا میں تو باقاعدہ دفتر خارجہ سفارتی کارڈ جاری کرتا ہے جن پر اگر استثنیٰ ہو تو اس حوالے سے تصدیق بھی درج ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی دفتر خارجہ کا ستمبر 2010ء کا جاری کردہ کتابچہ دیکھا جاسکتا ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ جن سفارتکاروں کے پاس یہ کارڈ نہ ہو یا کارڈ کے اوپر استثنیٰ کے حوالے سے واضح ہدایات درج نہ ہوں ، اُنہیں کسی بھی صورت کسی بھی جرم کے حوالے سے استثنیٰ نہ دیا جائے بلکہ یہاں تک درج ہے کہ ایسا کارڈ موجود ہونے اور اس پر استثنیٰ کے واضح اندراج کے باوجود یہ ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعلقہ اہلکار دفتر خارجہ کو فون کرکے باقاعدہ تصدیق کردیں گے غرض ویانا کنونشن کے تحت حاصل استثنیٰ میزبان ملک کی وزارت خارجہ کو Notify کرنےسے منسلک ہے۔ 7. 1961 کے اسی ویانا کنونشن کے استثنیٰ کے لیے اہلیت کی شرائط بھی موجود ہیں ۔ واقعے کے تیسرے ہی دن امریکی دفتر خارجہ نے سرکاری طور پر کہا کہ امریکی قاتل کا نام ’ریمنڈ ڈیوس‘ نہیں ہے۔ آج کے دن تک اس سرکاری بیان کی تردید نہیں کی گئی۔ قریشی صاحب تصدیق کرچکے ہیں کہ ریمنڈ کی استثنیٰ کی درخواست پاکستانی وزارتِ خارجہ نے آج تک notify نہیں کی۔ فرض کریں کہ ایسا کر بھی دیا گیا ہوتا تب بھی جب امریکی حکومت سرکاری طور پر اعلان کررہی ہے کہ اس شخص کا نام ریمنڈ نہیں تو استثنیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ ویانا کنونشن کے تحت جس شخص کو بھی استثنیٰ حاصل ہوگا، اس کے نام سے میزبان ملک کی وزارتِ خارجہ کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا ضروری ہے۔