کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 49
لغیره [1] ’’(صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ باجماعت کے اس لئے قائل نہ ہوئے کہ) اُن میں سے ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کی برکت خاص کو بایں صورت حاصل کرنا چاہتا تھا کہ کوئی شخص اس برکت میں کسی دوسرے کا تابع نہ بنے (بلکہ وہ تمام اس اجروثواب اور برکت کےبرابر مستحق ٹھہریں )۔ کیا صحابیاتِ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئی تھیں ؟ وہ روایات جن میں آتا ہے کہ مرد حضرات کے بعد عورتوں نے بھی اِنفراداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا تھا، وہ تمام روایات ناقابل احتجاج ہیں او راس بارے کوئی صحیح و مستند روایت موجود نہیں جس میں عورتوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ پڑھنا ثابت ہو۔ اس نوع کی کچھ روایات گزر چکی ہیں او رعورتوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی عبد اللہ بن عباس سے مروی روایت بھی ضعیف ہے، جس میں آپ کی طر ف یہ قول منسوب کیا گیا ہے: فلما فرغوا من جهازه یوم الثلاثاء وضع على سریره في بیته ثم دخل الناس علی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أرسالًا، یصلون علیه. حتی إذا فرغوا أدخلوا النساء، حتی إذا فرغوا أدخلوا الصبیان، ولم یؤم الناس على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أحد [2] ’’پس جب بروز منگل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو آپ کو آپ کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر رکھا گیا۔پھر لوگ گروہ در گروہ اندر داخل ہوکر نماز
[1] الجامع لأحکام القرآن: ‎‎‎/2254 [2] مسنداحمد:1‎‎‎/292، مسندابویعلی:22، سنن ابن ماجہ:1628، سنن بیہقی:4‎‎‎/30۔یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں حسین بن عبداللہ بن عبید اللہ ہاشمی ضعیف راوی ہے اور اس پرعلمائے جرح وتعدیل نے سخت جرح کی ہے جیساکہ یحییٰ بن معین نے کہا: ضعیف ہے۔ امام احمدؒ کا قول ہے کہ اس کی احادیث منکر ہیں اور امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے بارے علی بن مدینی کا قول ہے کہ میں نے اس کی احادیث چھوڑ دی ہیں ۔ ابوزرعہ کہتے ہیں کہ یہ کمزور راوی ہے او رامام نسائی نے اسے متروک کہا ہے۔ (میزان الاعتدال:1‎‎‎/537)