کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 48
شریک ٹھہریں ) نوٹ: رسول اللہ کے جنازے کے حوالے سے’احترام وعظمت والے‘ قول کی تائید شیعہ کتب میں موجود اس روایت سے بھی ہوتی ہے: فلما فرغ أمیر المؤمنین عليه السلام من غسله وتجهيزه تقدم فصلى عليه وحده ولم يشتركه معه أحد في الصلاة عليه وكان المسلمون في المسجد يخوضون فيمن يؤمهم في الصلاة عليه وأين يدفن؟ فخرج إليهم أمير المؤمنين عليه السلام فقال لهم: إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إمامنا حيًا وميتًا فيدخل إليه فوج بعد فوج منكم فيصلون عليه بغير إمام وينصرفون، وإن الله تعالى لم يقبض نبيًا في مكان إلا وقد ارتضاه لرمسه فيه وإني دافنه في حجرته التي قبض فيها فسلم القوم لذلك ورضوا به [1] ’’جب امیر المؤمنین (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) آپ کے غسل اور تجہیز وتکفین سے فارغ ہوئے تو اُنہوں نے آگے بڑھ کر تن تنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا اور اس میں کوئی دوسرا فرد ان کے ساتھ شریکِ نماز نہ ہوا۔جب کہ دیگر مسلمان اس مسئلہ میں کہ آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت کون کرائے اور آپ کی تدفین کس جگہ ہو؟سوچ وبچار میں مبتلا تھے،پھر امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور ارشاد کیا:بلاشبہ رسول اللہ زندہ اور مردہ (دونوں حالتوں میں ) ہمارے امام وپیش رو ہیں ،لہذا تم گروہ در گروہ (حجرہ شریف میں ) داخل ہو کر امام کے بغیر (انفرادی طور پر) آپ کی نمازِ جنازہ پڑھو اور واپس آتے جاؤ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کو جس جگہ موت سے دوچار کیا ہے، اس نے آپ کی تدفین کے لیے اسی جگہ کو پسند کیا ہے۔ اس لیے میں آپ کو جہاں آپ کی روح قبض ہوئی ہے، حجرہ میں اسی جگہ دفنانے والا ہوں ۔ چنانچہ ان کی رائے کو تمام حاضرین نے تسلیم وقبول کر لیا۔‘‘ 2. امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : أرادوا أن یأخذ کل أحد برکته مخصوصًا دون أن یکون فيها تابعًا
[1] مرأۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول از ملا مجلسی:5‎‎‎/265، منہاج البراعة فی شرح منہج البلاغة،ص19