کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 45
2. سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں : لما ثقل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، قلنا: من یصلي علیك یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فبکی وبکینا وقال مهلا: غفر الله لکم وجزاکم عن نبیکم خیرًا، إذا غسلتموني وحنطتموني وکفنتموني فضعوني علی شفیر قبری، ثم اخرجوا عني ساعة، فإن أوّل من یصلي علي خلیلي وجلیسي جبریل ومیکائیل، ثم إسرافیل، ثم ملك الموت مع جنود من الملائکة، ثم لیبدأ بالصلاة على رجال أهل بیتي، ثم نساؤهم، ثم ادخلوا أفواجًا أفواجًا وفرادٰی [1] ’’جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو ہم نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو دیئے او رہم بھی اشک بار ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمائے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے لو ، مجھے کافور لگا لو اور مجھے کفن دے دو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر کچھ دیر کے لئے مجھ سے دور ہوجانا، چنانچہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ میرے خلیل و ہم نشین جبرئیل و میکائیل پڑھیں گے، پھر اسرافیل، ازاں بعد ملک الموت فرشتوں کے لشکروں سمیت میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔پھر میری نمازِ جنازہ کا آغاز میرے اہل بیت کے فرد، ان کے بعد اہل بیت کی عورتیں کریں ۔پھر تم گروہ در گروہ اور تنہا تنہا داخل ہونا(اور نماز ادا کرنا)۔‘‘ نیز اس معنی کی تمام روایات جن میں وضاحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو فرداً فرداً نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا تھا، ضعیف اور ناقابل حجت ہیں ۔امام شوکانی اس مفہوم کی تمام روایات پران الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں : وأما ما روي أن صلاتهم علیه فرادٰی کان بوصية منه صلی اللہ علیہ وسلم فلم یصح في
[1] مستدرک حاکم:3‎‎‎/62، حلیۃ الاولیاء لابی نعیم: 1‎‎‎/168،169...یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ اس میں سلام بن سلیمان مدائنی اورعبدالملک بن عبدالرحمن منکر الحدیث ہیں جبکہ اشعث بن خلیق ضعیف راوی ہیں۔ دیکھیے:السلسلة الضعيفة:6445