کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 44
کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ اکیلے اکیلے ادا کریں ، انتہائی ضعیف اور ناقابل حجت ہیں ۔ ذیل میں ہم ایسی روایات او ران کا حکم بیان کریں گے:
1. سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! إذا أنت قُبضتَ فمن یغسلك، وفیم نکفّنك، ومن یصلی علیك، ومن یدخل القبر؟ فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : یا علي! أما الغسل فاغسلني أنت، والفضل بن عباس یصب علیك الماء وجبریل عليه السلام ثالثکما، فإذا أنتم فرغتم من غسلي فکفنوني في ثلاثة أثواب جدد، وجبریل عليه السلام یأتني بحنوط من الجنة، فإذا أنتم وضعتموني علی السریر فضعوني في المسجد واخرجوا عني،فإن أوّل من یصلی علي الرب عز وجلّ من فوق عرشه ثم جبریل عليه السلام ثم میکائیل ثم إسرافیل عليهما السلام ثم الملائكة زمرًا زمرًا، ثم ادخلوا فقوموا صفوفًا لا یتقدم علي أحد [1]
’’یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کون دے گا؟ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن کس میں دیں گے، آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور آپ کو قبر میں کون اُتارے گا؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی رضی اللہ عنہ ! غسل تو مجھے تم دینا، فضل بن عباس مجھ پر پانی بہائیں گے اور جبرئیل علیہ السلام تمہارے تیسرے ساتھی ہوں گے۔ سو جب تم میرے غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفنانا اور جبرئیل علیہ السلام میرے لئے جنت سے حنوط (خوشبو) لائیں گے اور تم مجھے چارپائی میں رکھو تو مجھے مسجد میں رکھ کر مجھ سے پرے ہٹ جانا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے، وہ ربّ تعالیٰ عرش کے اوپر سے (میری نمازِ جنازہ ) پڑھیں گے۔ پھر جبرئیل بعد ازاں میکائیل، اس کے بعد اسرافیل پھر تمام فرشتے جماعت در جماعت میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم حجرہ میں داخل ہونا اور صفوں میں کھڑے ہونا، کوئی بھی میرا پیش امام نہ بنے۔‘‘
[1] معجم طبرانی کبیر:2676 یہ حدیث موضوع ہے، کیونکہ ا سکی سند میں عبدالمنعم بن ادریس بن سنان کذاب اوراس کا باپ ادریس بن سنان ضعیف راوی ہیں۔دیکھیے:مجمع الزوائد:9/130