کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 43
4. ابن دحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : والصحیح أن المسلمین صلوا عليه أفرادا لا یؤمهم أحد [1] ’’راجح اور درست بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرداً فرداً نماز ِجنازہ پڑھی اور کسی بھی شخص نے نمازِ باجماعت کی امامت کے فرائض ادا نہ کئے۔‘‘ امام نووی نے بھی اسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔ [2] تیسرا اِشکال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ باجماعت کیوں نہ پڑھی گئی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کا باجماعت اہتمام کیوں نہ کیا اوروہ کون سے عوامل و اسباب تھے جن کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے انفرادی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ پڑھنےکو فوقیت دی؟ اس بارے علما کے کئی اقوال ہیں جنہیں درج کرنے کے بعد راجح قول کی نشاندہی کی جائے گی۔ پہلا سبب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی ہدایت کی تھی ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن احمدسہیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انفرادی نمازِ جنازہ پڑھے جانے کی یہ علت بیان کرتے ہیں : وهذاخصوص به صلی اللہ علیہ وسلم ولا یکون هذا الفعل إلا عن توقیف وکذلك روي أنه أوصٰی بذلك [3] ’’یہ (انفرادی نمازِ جنازہ پڑھنا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ او ریہ فعل کسی توقیفی (منزل من اللہ) حکم کے بغیر روبہ عمل نہیں ہو سکتا تھا۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو) پابند کیا تھا۔‘‘ جہاں تک انفرادی نمازِ جنازہ کا اہتمام کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہونے کی بات ہے تو کتاب و سنت میں کوئی ایسی ٹھوس دلیل موجودنہیں اور ایسی روایات جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام
[1] نیل الاوطار: ‎‎‎/474 [2] شرح النووی: ‎‎‎/367 [3] الروض الانف: ‎‎‎/594،5957