کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 41
مشاورت سے) کہا: تم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ میں ) ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سےنکل جاتے تھے۔‘‘
یہ حدیث اس امر کی صریح دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نےنبی کی مسنون نمازِ جنازہ پڑھی تھی، محض دعا پر ہی اکتفا نہ کیا تھا۔ چنانچہ اس قول کو راجح قرار دیتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں :
والصحیح الذي عليه الجمهور أنهم صلوا عليه فرادٰی، فکان یدخل فوج یصلون فرادٰى، ثم یخرجون ثم یدخل فوج آخر فیصلون کذلك
اس بارے راجح اور مبنی برحق موقف جمہور علماء کا ہےکہ اُنہوں (صحابہ)نے آپ کی انفرادی نماز جنازہ پڑھی تھی (محض دعا پراکتفا نہ کیا تھا)۔چنانچہ ایک جماعت حجرہ شریف میں داخل ہوتی تو وہ انفرادی نمازِ جنازہ پڑھ کر باہر آجاتی، پھر دوسرا گروہ داخل ہوتا اور اس طرح از خود نمازِ جنازہ کااہتمام کرتا۔[1]
دوسرا اِشکال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کا باجماعت اہتمام ہوا یا انفرادی؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ کےمتعلق علما کا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ باجماعت ادا کی گئی یا ہرشخص نے از خود نمازِ جنازہ کا اہتما م کیا؟
قول اوّل:ابن قصار نے اس مسئلہ میں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ انفرادی طور پر پڑھی یا نماز باجماعت کا اہتما م کیا گیا؟ ....علما کا اختلاف بیان کیا ہے، پھر ان کا اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ نما زباجماعت کی امامت کس نے کرائی تھی؟ چنانچہ ایک سند سے مروی ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کی امامت کے فرائض سیدنا ابوبکر نے انجام دیے تھے۔‘‘ اس روایت پر جرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ اس میں حرام نامی راوی ہے جس کی وجہ سے یہ روایت سخت ضعیف ہے اور ابن دحیہ کہتے ہیں :یہ روایت راویوں کے ضعف اورسند میں انقطاع کی وجہ سے قطعی باطل
[1] شرح النووی: /267